December 29, 2022

شکیبؔ دیپ سے لہرا رہے ہیں پلکوں پر

 ‏کنار آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی

گماں گزرتا ہے یہ شخص دوسرا ہے کوئی

ہوا نے توڑ کے پتہ زمیں پہ پھینکا ہے

کہ شب کی جھیل میں پتھر گرا دیا ہے کوئی

شکیبؔ دیپ سے لہرا رہے ہیں پلکوں پر

دیارِ چشم میں کیا آج رت جگا ہے کوئی


شکیب جلالی




No comments:

Post a Comment