June 27, 2023

 

کبھی ہم خُوب صُورت تھے 

کتابوں میں بَسی 

خُوشبو کی صُورت 

سانس ساکِن تھی 


بہت سے اَن کہے لفظوں سے 

تصویریں بناتے تھے 

پرندوں کے پروں پر نظم لکھ کر 

دُور کی جھیلوں میں بسنے والے 

لوگوں کو سُناتے تھے 

جو ہم سے دُور تھے لیکن 

ہمارے پاس رہتے تھے 


نئے دِن کی مُسافت 

جب کِرن کے ساتھ 

آنگن میں اُترتی تھی 

تو ہم کہتے تھے 

اَمی تِتلیوں کے پَر 

بہت ہی خُوب صُورت ہیں

 

ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو 

کہ ہم کو تتلیوں کے 

جگنوؤں کے دیس جانا ہے 

ہمیں رنگوں کے جُگنو 

روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں 


نئے دِن کی مُسافت 

رنگ میں ڈُوبی ھََوا کے ساتھ 

کِھڑکی سے بُلاتی ہے

ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو 

ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو 


"احمّد شمیم"

June 26, 2023

 ‏یا رب غم ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا

جو ہاتھ جگر پر ہے، وہ دست دعا ہوتا


ایک عشق کا غم آفت اور اس پہ یہ دل آفت

یا دل نہ دیا ہوتا، یا غم نہ دیا ہوتا


غیروں سے کہا تم نے، غیروں سے سنا تم نے

کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سنا ہوتا


امید تو بندھ جاتی، تسکین تو ہو جاتی

وعدہ نہ وفا کرتے، وعدہ تو کیا ہوتا


ناکام تمنا دل اس سوچ میں رہتا ہے

یوں ہوتا تو کیا ہوتا، یوں ہوتا تو کیا ہوتا


چراغ حسن حسرت

June 25, 2023

 ‏سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا سبھی راحتیں سبھی کلفتیں

کبھی صحبتیں کبھی فرقتیں کبھی دوریاں کبھی قربتیں


یہ سخن جو ہم نے رقم کیے یہ ہیں سب ورق تری یاد کے

کوئی لمحہ صبح وصال کا کوئی شام ہجر کی مدتیں


جو تمہاری مان لیں ناصحا تو رہے گا دامن دل میں کیا

نہ کسی عدو کی عداوتیں نہ کسی صنم کی مروتیں


چلو آؤ تم کو دکھائیں ہم جو بچا ہے مقتل شہر میں

یہ مزار اہل صفا کے ہیں یہ ہیں اہل صدق کی تربتیں


مری جان آج کا غم نہ کر کہ نہ جانے کاتب وقت نے

کسی اپنے کل میں بھی بھول کر کہیں لکھ رکھی ہوں مسرتیں


فیض احمد فیض

 ‏فیض احمد فیض:

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد

پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد


کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار

خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد


تھے بہت بے درد لمحے ختمِ درد عشق کے

تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد


دل تو چاہا پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ دی

کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد


ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیئے

ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

June 23, 2023

 ‏تو کوزہ گر ہے اگر چاک سے اتار مجھے

مگر یہ شرط ہے پہلے ذرا سنوار مجھے


گزر گیا ہے جو اک موجۂ ہوا کی طرح

جدا نہ ہوتا نہ کرتا وہ سوگوار مجھے


کھلے شگوفے مگر پھول بھی نہ بن پائے

اداس کر گیا یہ موسمِ بہار مجھے


وہ ایک شخص جو دل میں سما گیا تھا حسٓن

اسی کے ذکر سے ملتا ہے اب قرار مجھے

شاعر۔ حسن عسکری کاظمی

June 22, 2023

 ‏اور آہستہ کیجیے باتیں

دَھڑکنیں کوئی سُن رہا ہو گا


لفظ گِرنے نہ پائیں ہونٹوں سے

وقت کے ہاتھ اُن کو چُن لیں گے

کان رکھتے ہیں یہ در و دیوار

راز کی ساری بات سُن لیں گے۔


اور آہستہ کیجیے باتیں

دَھڑکنیں کوئی سُن رہا ہو گا


آئیے بند کر لیں دروازے

رات سَپنے چُرا نہ لے جائے

کوئی جَھونکا ہوا کا آوارہ

دِِل کی باتوں کو اُڑا نہ لے جائے۔


اور آہستہ کیجیے باتیں

دَھڑکنیں کوئی سُن رہا ہو گا


ایسے بولو کہ دِل کا افسانہ

دِل سُنے اور نِگاہ دُہرائے

اپنے چاروں طرف کی یہ دُنیا

سانس کا شور بھی نہ سُن پائے


اور آہستہ کیجیے باتیں

دَھڑکنیں کوئی سُن رہا ہو گا


ظفرؔ گورکھپوری

June 21, 2023

 ‏خشک آنکھوں سے کہاں طے یہ مسافت ہوگی 

دل کو سمجھایا تھا اشکوں کی ضرورت ہوگی 

رنگ محلوں کے حسیں خواب سے بچ کر رہنا 

ہے خبر گرم کہ خوابوں کی تجارت ہوگی 

میری تنہائی سکوں دینے لگی ہے مجھ کو 

اس سے مت کہنا سنے گا تو ندامت ہوگی 


طارق قمر

June 19, 2023

یہ جمال کیا یہ جلال کیا یہ عروج کیا یہ زوال کیا

وہ جو پیڑ جڑ سے اکھڑ گیا اسے موسموں کا ملال کیا


وہ جو لمحہ لمحہ بکھر گیا وہ جو اپنی حد سے گزر گیا

اسے فکر شام و سحر ہو کیا اسے رنجش مہ و سال کیا


وہ جو بے نیاز سا ہو گیا وہ جو ایک راز سا ہو گیا

جسے کچھ غرض ہی نہیں رہی اسے دست حرف سوال کیا


ہوا ریزہ ریزہ جو دل ترا اسے جوڑ جوڑ کے مت دکھا

وہ جو اپنے حسن میں مست ہے اسے آئنے کا خیال کیا


وہی ہجر رات کی بات ہے وہی چاند تاروں کا ساتھ ہے

جو فراق سے ہوا آشنا اسے آرزوئے وصال کیا


کسی اور سے کریں کیوں گلہ ہمیں اپنے آپ سے دکھ ملا

وہ جو درد دل سے ہو آشنا اسے دنیا بھر کا وبال کیا


وہی گرد گرد غبار ہے وہی چاروں اور فشار ہے

وہ جو خود کو بھی نہیں جانتا وہ ہو میرا واقف حال کیا


اسے سعدؔ کیسا بتائیں ہم اسے کس سے جا کے ملائیں ہم

وہ تو خود سراپا مثال ہے یہ گلاب کیا یہ غزال کیا


سعداللہ شاہ

 ‏تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ایسے تو حالات نہیں

ایک  ذرا  سا  دل  ٹوٹا  ہے  اور تو کوئی بات نہیں

 

کس کو خبر تھی سانولے بادل بن برسے اڑ جاتے ہیں

ساون  آیا  لیکن  اپنی  قسمت  میں  برسات  نہیں


ٹوٹ گیا جب دل تو پھر یہ سانس کا نغمہ کیا معنی

گونج رہی ہے کیوں شہنائی جب کوئی بارات نہیں


غم کے اندھیارے میں تجھ کو اپنا ساتھی کیوں سمجھوں

تو  پھر  تو  ہے  میرا  تو  سایہ  بھی  میرے  ساتھ  نہیں


مانا  جیون  میں  عورت  اک  بار  محبت  کرتی ہے

لیکن مجھ کو یہ تو بتا دے کیا تو عورت ذات نہیں


ختم  ہوا  میرا  فسانہ  اب  یہ  آنسو پونچھ بھی لو

جس میں کوئی تارا چمکے آج کی رات وہ رات نہیں


میرے غمگیں ہونے پر احباب ہیں یوں حیران قتیلؔ

جیسے میں پتھر ہوں میرے سینے میں جذبات نہیں


قتیل شفائی

 ‏جون ایلیاء ....

نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم 

بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم 

 

خموشی سے ادا ہو رسمِ دوری 

کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم  


یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں 

وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم  


وفا، اخلاص، قربانی،مرو ّت 

اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم  


سنا دیں عصمتِ مریم کا قصّہ؟ 

پر اب اس باب کو وا کیوں کریں ہم  


زلیخائے عزیزاں بات یہ ہے 

بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کری ہم  


ہماری ہی تمنّا کیوں کرو تم 

تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم  


کیا تھا عہد جب لمحوں میں ہم نے 

تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم  


اُٹھا کر کیوں نہ پھینکیں ساری چیزیں 

فقط کمروں میں ٹہلا کیوں کریں ہم  


جو اک نسل فرومایہ کو پہنچے 

وہ سرمایہ اکٹھا کیوں کریں ہم

  

نہیں دُنیا کو جب پروا ہماری 

تو پھر دُنیا کی پروا کیوں کریں ہم

  

برہنہ ہیں سرِبازار تو کیا 

بھلا اندھوں سے پردہ کیوں کریں ہم 

 

ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی 

سو خود پر بھی بھروسا کیوں کریں ہم

  

چبا لیں کیوں نہ خود ہی اپنا ڈھانچہ 

تمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم

  

پڑی رہنے دو انسانوں کی لاشیں 

زمیں کا بوجھ ہلکا کیوں کریں ہم  


یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی 

یہاں کارِ مسیحا کیوں کریں ہم....

June 17, 2023

 ‏اس روز جو ان کو دیکھا ھے 

اب خواب کا عالم لگتا ھے 

اس روز جو اُن سے بات ھُوئی 

وہ بات بھی تھی افسانہ کیا ؟


اُس حسن کے سچے موتی کو 

ھم دیکھ سکیں پر چُھو نہ سکیں 

جسے دیکھ سکیں پر چُھو نہ سکیں 

وہ دولت کیا ، وہ خزانہ کیا 


"اِبنِ انشاء"

June 16, 2023

 ‏شبنم ہے کہ دھوکا ہے کہ جھرنا ہے کہ تم ہو

دل دشت میں اک پیاس تماشہ ہے کہ تم ہو


اک لفظ میں بھٹکا ہوا شاعر ہے کہ میں ہوں

اک غیب سے آیا ہوا مصرع ہے کہ تم ہو


دروازہ بھی جیسے مری دھڑکن سے جڑا ہے

دستک ہی بتاتی ہے پرایا ہے کہ تم ہو


اک دھوپ سے الجھا ہوا سایہ ہے کہ میں ہوں

اک شام کے ہونے کا بھروسہ ہے کہ تم ہو


میں ہوں بھی تو لگتا ہے کہ جیسے میں نہیں ہوں

تم ہو بھی نہیں اور یہ لگتا ہے کہ تم ہو


احمد سلمان

 ‏ہے جس کے ہات میں پتھر اُسے گماں بھی نہیں

کہ  فکرِ  آئینۂ  جسم و جاں ،  یہاں  بھی  نہیں


جو بات تیری نظر میں ہے اور مرے دل میں

اگر  زباں  پہ  نہ  آئے  تو  رائیگاں بھی نہیں


اب  اُس  نے  وقت  نکالا  ہے  حال سننے کو

بیان کرنے کو جب کوئی داستاں بھی نہیں


وہ دل سے سرسری گزرا، کرم کیا اُس نے

کہ رہنے کا متحّمل تو یہ مکاں بھی نہیں


زمیں  پیروں  سے  نکلی  تو  یہ  ہوا معلوم

ہمارے سر پہ کئی دن سے آسماں بھی نہیں


سفر میں چلتے نہیں عام زندگی کے اُصول

وہ ہم قدم ہے مرا جو مزاج داں بھی نہیں


نہیں   پسند  کوئی  بے   توجہی  اُس  کو

اور اپنے چاہنے والوں پہ مہرباں بھی نہیں


مرے ہی گھر میں اندھیرا نہیں ہے صرف جمال

کوئی  چراغ فروزاں  کسی  کے  ہاں  بھی نہیں

 

جمالؔ احسانی

June 14, 2023

 ‏چاند سے چہرے کا صدقہ بھی اُتارا کیجے

مشورہ  ہے  یہ  میری  جان!  گوارا  کیجے


ہم تُمہیں ایک نَظَر بھی نہیں اچھّے لگتے

ارے کیجئے جان یہی بات دوبارا کیجے


روشنی دِن کی اندھیروں میں سِمَٹ جاتی ہے

گھر  کے  آنگن  میں  نہ یُوں بال سنوارا کیجے


ہم تو یہ جان ہتھیلی پہ لئے پِھرتے ہیں

بَس کِسی دِن ہمیں ہلکا سا اِشارا کیجے


آپ تو مَحل نشِیں نرم مُلائم سے ہیں

جھونپڑی ہے یہ غریبوں کی گُزارا کیجے 


ہم تو راہوں میں لیے پھرتے ہیں کاسہِ دِل

حال  کیسا  ہے  کِسی  روز  نظارا  کیجے...


شاعر:  افضل عاجز

June 11, 2023

 ‏فیض احمد فیض ❤️


کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں کب ہات میں تیرا ہات نہیں 

صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں 


مشکل ہیں اگر حالات وہاں دل بیچ آئیں جاں دے آئیں 

دل والو کوچۂ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں 


جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے 

یہ جان تو آنی جانی ہے اِس جاں کی تو کوئی بات نہیں 


میدانِ وفا دربار نہیں یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں 

عاشق تو کسی کا نام نہیں کُچھ عِشق کسی کی ذات نہیں 


گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا 

گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں

June 08, 2023

 ‏وہ دن گیا جب کہ ہر ستم کو،،

ادائے محبوب سمجھ کے چپ تھے،،

اٹَھے گی ہم پر جو اینٹ کوئی۔۔۔

تو پتھر اسکا جواب ہو گا۔۔۔۔۔۔

سکون صحرا میں بسنے والو۔۔

ذرا رتوں کا مزاج سمجھو۔۔

جو آج کا دن سکوں سے گزرا۔۔

تو کل کا موسم خراب ہو گا

 ‏کتاب سادہ رہے گی کب تک؟؟

کبھی تو آغاز باب ہو گا۔۔۔

جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی،،

کبھی تو انکا حساب ہوگا۔۔۔۔

سحر کی خوشیاں منانے والو۔۔

سحر کے تیور بتا رہے ہیں۔۔۔

ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی،،

کہ سانس لینا عذاب ہو گا۔۔۔۔۔

۔۔۔

June 06, 2023

 ‏کبھی ان کا نام لینا کبھی ان کی بات کرنا

مرا ذوق ان کی چاہت مرا شوق ان پہ مرنا


وہ کسی کی جھیل آنکھیں وہ مری جنوں مزاجی

کبھی ڈوبنا ابھر کر کبھی ڈوب کر ابھرنا


ترے منچلوں کا جگ میں یہ عجب چلن رہا ہے

نہ کسی کی بات سننا، نہ کسی سے بات کرنا


شب غم نہ پوچھ کیسے ترے مبتلا پہ گزری

کبھی آہ بھر کے گرنا کبھی گر کے آہ بھرنا


وہ تری گلی کے تیور، وہ نظر نظر پہ پہرے

وہ مرا کسی بہانے تجھے دیکھتے گزرنا


کہاں میرے دل کی حسرت، کہاں میری نارسائی

کہاں تیرے گیسوؤں کا، ترے دوش پر بکھرنا


چلے لاکھ چال دنیا ہو زمانہ لاکھ دشمن

جو تری پناہ میں ہو اسے کیا کسی سے ڈرنا


وہ کریں گے نا خدائی تو لگے گی پار کشتی

ہے نصیرؔ ورنہ مشکل، ترا پار یوں اترنا


پیر نصیر الدین نصیر رح

June 05, 2023

 ‏میں نے ایک اور بھی محفل میں انہیں دیکھا ہے

یہ جو تیرے نظر آتے ہیں یہ سب تیرے نہیں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 

افتخار عارف


یہ کیا کہ خاک ہوئے ہم جہاں وہیں کے نہیں

جو ہم یہاں کے نہیں ہیں تو پِھر کہیں کے نہیں


وفا سرشت میں ہوتی تو سامنے آتی

وہ کیا فلک سے نبھائیں گے جو زمیں کے نہیں


تیری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں

اے مرے شہر ترے لوگ بھی اب تیرے نہیں


میں نے ایک اور بھی محفل میں انہیں دیکھا ہے

یہ جو تیرے نظر آتے ہیں یہ سب تیرے نہیں


یہ بہر لحظہ نئی دُھن پہ تھرکتے ہوئے لوگ

کس کو معلوم یہ کب تیرے ہیں کب تیرے نہیں

June 04, 2023

 ‏کون آئے گا یہاں کوئی نہ آیا ہو گا

میرا دروازہ ہواؤں نے ہلایا ہو گا


دل ناداں نہ دھڑک اے دل ناداں نہ دھڑک

کوئی خط لے کے پڑوسی کے گھر آیا ہو گا


اس گلستاں کی یہی ریت ہے اے شاخ گل

تو نے جس پھول کو پالا وہ پرایا ہو گا


دل کی قسمت ہی میں لکھا تھا اندھیرا شاید

ورنہ مسجد کا دیا کس نے بجھایا ہو گا


گل سے لپٹی ہوئی تتلی کو گرا کر دیکھو

آندھیو تم نے درختوں کو گرایا ہو گا


کھیلنے کے لیے بچے نکل آئے ہوں گے

چاند اب اس کی گلی میں اتر آیا ہو گا


کیفؔ پردیس میں مت یاد کرو اپنا مکاں

اب کے بارش نے اسے توڑ گرایا ہو گا


کیف بھوپالی

June 03, 2023

حمد فراز صاحب ر ❤️


سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں


سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے

سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں


سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کی

سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں


سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف

سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں


سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں

یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں


سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے

ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں


سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں

سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں


سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں

سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں


سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اس کی

سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں


سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے

سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں


سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں

سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں


سنا ہے آئنہ تمثال ہے جبیں اس کی

جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں


سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے

کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں


بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا

سو رہروان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں


سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت

مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں


رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں

چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں


کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے

کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں


کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی

اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں


اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں

فرازؔ آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں

 ‏مرے چمن میں بہاروں کے پھول مہکیں گے

مجھے یقیں ہے شراروں کے پھول مہکیں گے


کبھی تو دیدہ نرگس میں روشنی ہو گی

کبھی تو اجڑے دیاروں کے پھول مہکیں گے


تمھاری زلف پریشاں کی آبرو کے لئے 

کئی ادا سے چناروں کے پھول مہکیں گے


چمک ہی جائے گی شبنم لہو کی بوندوں سے

روش روش پہ ستاروں کے پھول مہکیں گے


ہزاروں موجِ تمنّا صدف اُچھالے گی

تلاطموں سے کناروں کے پھول مہکیں گے


یہ کہہ رہی ہیں فضائیں بہار کی ساغر

جگر فروز اشاروں کے پھول مہکیں گے


ساغر صدیقی


از:-کلیاتِ ساغر ص ۱۳۷

June 02, 2023

 ‏دردِ دل یار رہا درد سے یاری نہ گئی 

زندگی ہم سے تو بے لطف گزاری نہ گئی


دن کے نالے نہ گئے رات کی زاری نہ گئی 

نہ گئی دل سے کبھی یاد تمہاری نہ گئی


ہم تو خوں گشتہ تمناؤں کے ماتم میں رہے 

سینہ کوبی نہ گئی سینہ فگاری نہ گئی


انتظار آپ کا کب لطف سے خالی نکلا 

رائیگاں رات کسی روز ہماری نہ گئی


بخشوایا مجھے تم نے تو خدا نے بخشا 

نہ گئی روزِ جزا بات تمہاری نہ گئی


لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ لیکن 

دن ہمارا نہ گیا رات ہماری نہ گئی


مبارک عظیم آبادی

June 01, 2023

 ‏روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے

چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے


ایک دیوانہ مسافر ہے مری آنکھوں میں

وقت بے وقت ٹھہر جاتا ہے چل پڑتا ہے


اپنی تعبیر کے چکر میں مرا جاگتا خواب

روز سورج کی طرح گھر سے نکل پڑتا ہے


روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں

روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے


اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو

دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے


راحت اندوری