April 30, 2023

 ‏میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں

حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں


جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی

تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں


دور و نزدیک سے اٹھتا نہیں شورِ زنجیر

اور صحرا میں کوئی نقشِ کفِ پا بھی نہیں


بے نیازی سے سبھی قریہء جاں سے گزرے

دیکھتا کوئی نہیں ہے کہ تماشا بھی نہیں


وہ تو صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا تھا

تو نے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں


کس کو نیرگئی ایّام کی صورت دکھلائیں

رنگ اڑتا بھی نہیں، نقش ٹھہرتا بھی نہیں


ڈاکٹر اسلم انصاری

 ‏وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے 

گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے 


نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے 

وہ زخم تازہ ہوۓ ہیں جو بھرنے والے تھے 


یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی 

کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے 


ہزار مجھ سے وہ پیمانِ وصل کرتا رہا 

پر اس کے طور طریقے مکرنے والے تھے 


تمہیں تو فخر تھا شیرازہ بندیِ جاں پر 

ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے 


تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں 

وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے 


اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں 

وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے


جمال احسانیٓ

April 27, 2023

 کِتنا خوش فہم ہے وہ شخص کہ ہر موسم میں

اِک نئے رُخ نئی صُورت سے مُجھے سوچتا ہے

گرچہ اب ترکِ مراسم کو بہت دیر ہُوئی
اب بھی وہ میری اجازت سے مُجھے سوچتا ہے
میں تو مَرجاؤں اگر سوچتے لگ جاؤں اُسے
اور وہ کِتنی سہُولت سے مُجھے سوچتا ہے
جِس نے سوچا ہی نہ تھا ہجر کا ممکن ہونا
دُکھ میں ڈوُبی ہُوئی حیرت سے مُجھے سوچتا ہے

April 20, 2023

 

مری جان خانہ بدوش کو وہ سکوں ملا ترے شہر سے

کہ میں کوچ کرنے کے بعد بھی نہ بچھڑ سکا ترے شہر سے

میں سحاب بن کے ہواؤں میں تجھے ڈھونڈھتا تھا فضاؤں میں

سو ترے مکاں پہ برس پڑا جو گزر ہوا ترے شہر سے

تری رہ گزر سے لگاؤ تھا ترے آستاں پہ پڑاؤ تھا

ترا حکم تھا کہ سفر کروں سو میں چل پڑا ترے شہر سے

نہ وہ بجلیاں تھیں جمال کی نہ وہ بارشیں تھیں وصال کی

کئی حسرتوں سے اٹا ہوا میں گزر گیا ترے شہر سے

مرا نخل ذات اجڑ گیا میں تری زمیں سے اکھڑ گیا

کوئی گرد باد جنون کا مجھے لے اڑا ترے شہر سے

کہیں تخلیئے کو جو پا لیا وہیں بوریے کو بچھا لیا

میں نے کوہ و دشت کی خلوتوں کا مزہ لیا ترے شہر سے

میں دیار غیر میں اجنبی کبھی اس گلی کبھی اس گلی

میں تری گلی کا اسیر تھا مجھے عشق تھا ترے شہر سے

نہ میں کوہ کن نہ میں قیس تھا میں ترے نگر کا اویسؔ تھا

انہیں بندمن سے تھیں نسبتیں مرا سلسلہ ترے شہر سے