February 28, 2023

Faiz Ahmad Faiz Poetry تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیئے اے ارض وطن

 

تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیئے اے ارض وطن

جو ترے عارض بے رنگ کو گلنار کریں

کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہوگا

کتنے آنسو ترے صحراؤں کو گل زار کریں

تیرے ایوانوں میں پرزے ہوئے پیماں کتنے

کتنے وعدے جو نہ آسودۂ اقرار ہوئے

کتنی آنکھوں کو نظر کھا گئی بد خواہوں کی

خواب کتنے تری شہ راہوں میں سنگسار ہوئے

بلا کشان محبت پہ جو ہوا سو ہوا''

جو مجھ پہ گزری مت اس سے کہو، ہوا سو ہوا

مبادا ہو کوئی ظالم ترا گریباں گیر

''لہو کے داغ تو دامن سے دھو، ہوا سو ہوا

ہم تو مجبور وفا ہیں مگر اے جان جہاں

اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے

تیری محفل کو خدا رکھے ابد تک قائم

ہم تو مہماں ہیں گھڑی بھر کے ہمارا کیا ہے

February 24, 2023

 ‏تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کروگے؟

میں رو رہا ہوں تم ہنس رہے ہو، میں مسکرایا تو کیا کروگے؟


مجھے تو اس درجہ وقتِ رخصت، سکوں کی تلقین کر رہے ہو

مگر کچھ اپنے لئے بھی سوچا ، میں یاد آیا تو کیا کرو گے؟


‎#قابل_اجمیری

February 23, 2023

 ‏جہان بھرکی تمام آنکھیں نچوڑ کر جتنا نم بنے گا

یہ کُل مِلاکربھی ہجرکی رات میرے گِریے سےکم بنےگا

میں دشت ہوں' یہ مغالطہ ہے' نہ شاعرانہ مبالغہ ہے

مِرے بدن پر کہیں قدم رکھ کے دیکھ نقشِ قدم بنے گا

ہمارا لاشہ بہاو ورنہ لحَــد مقدّس مزار ہوگی

یہ سرخ کُرتاجلاؤ ورنہ بغاوتوں کا علَم بنے گا

February 21, 2023

Multan - city of saints.

‏کیا چمک دیتی ہے چہروں کو ترے شہر کی گرد... 
تیرے گلگشت کے صدقے،  ترے ملتان  کی خیر...

احمد عطاء اللہ



 

 

February 19, 2023

Ghazal

 ‏🌷🌷🌷غزل 🌷🌷🌷


دل کی شاخوں پہ چٹکتے ہیں ترے پیار کے پھول

پھر سے مہکے ہیں شناسائی کے اسرار کے پھول


کس کے لہجے کا ترنم ہے مرے مصرعوں میں

کس کی خوشبو کے طلبگار ہیں اشعار کے پھول


ایک سناٹے کا عالم ہے مگر بولتا ہے

کھِل رہے ہیں مری خاموشی میں گفتار کے پھول


ایک پرچھائیں ہے آنکھوں میں کسی وعدے کی

اور بالوں میں سجے رہتے ہیں اقرار کے پھول


آج پھر بھیج دیے دوشِ صبا پر اس نے

سرخ ملبوس میں لپٹے ہوئے اصرار کے پھول


روشنی وصل کی پھیلی ہے جڑوں میں شاید

ہجر کی رات میں لَو دیتے ہیں اس بار کے پھول


روشنی، حرفِ جنوں، دیدۂ حیراں نیلمؔ

ہر طرف بکھرے پڑے ہیں مرے آزار کے پھول


‎#نیلم_بھٹی


🌷🌷🌷🌷🌷🌷

Ek .main phikki chah nahe penda

 ‏اک میں پھیکی چاہ نئیں پیندا

دوجہ ٹھنڈی چاہ نئیں پیندا


جہڑی چاہ وچ چاہ نہ ہوے

جی میں ایسی چاہ نئیں پیندا


کلا بے کہ چاہ پینا واں

پر میں کلی چاہ نئیں پیندا


یا تے چاہ ای چھڈ دتی سو

یا فر ساڈی چاہ نئیں پیندا


تیری چاہ کوئی وکھری چاہ اے

جا میں تیری چاہ نئیں پیندا

February 17, 2023

Faiz Ahmad Faiz Poetry - مری جان آج کا غم نہ کر، کہ نہ جانے کاتبِ وقت نے

 


سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا، سبھی راحتیں، سبھی کلفتیں​

کبھی صحبتیں، کبھی فرقتیں، کبھی دوریاں، کبھی قربتیں​

یہ سخن جو ہم نے رقم کیے، یہ ہیں سب ورق تری یاد کے​

کوئی لمحہ صبحِ وصال کا، کئی شامِ ہجر کی مدّتیں​

جو تمہاری مان لیں ناصحا، تو رہے گا دامنِ دل میں کیا​

نہ کسی عدو کی عداوتیں، نہ کسی صنم کی مروّتیں​

چلو آؤ تم کو دکھائیں ہم، جو بچا ہے مقتلِ شہر میں​

یہ مزار اہلِ صفا کے ہیں، یہ ہیں اہلِ صدق کی تربتیں​

مری جان آج کا غم نہ کر، کہ نہ جانے کاتبِ وقت نے​

کسی اپنے کل میں بھی بھول کر، کہیں لکھ رکھی ہوں مسرّتیں​

February 16, 2023

Usay kehna!

 ‏اسے کہنا !

 جہاں ہم نے

 بچھڑتے وقت لکھا تھا

کوئی رت ہو ، کوئی موسم

محبت مر نہیں سکتی. 

وہاں پر لکھ گیا کوئی 

تعلق چاہے کیسا ہو  

بالآخر ٹوٹ جاتا ہے   

طبیعت بھر ہی جاتی ہے 

کوئی مانے یا نہ مانے پر  

محبت مر ہی جاتی ہے..!

February 15, 2023

Mohsin Naqvi: Beautiful Urdu Poetry Lines

 ‏مقروض غم دیدہ تر ہے تیرا محسن

 مدت سے یونہی خاک بسر ہے تیرا محسن 

شاید کسی رستے کی ہوا تیری خبر دے 

اس واسطے مصروف سفر ہے تیرا محسن

February 14, 2023

Hijar

 ‏خالی مکاں میں گھاس اُگی، جھاڑیاں بڑھیں

یعنی تمہارے ہجر میں یہ داڑھیاں بڑھیں


صحنوں میں یاسمیں کی جگہ کیکٹس اگا

خوشبو گھٹی خلوص کی، پھلواڑیاں بڑھیں 


 ہم نے بھی اس کے عشق میں قرضے چڑھا لیے

اس کی بھی وارڈ روب میں کچھ ساڑھیاں بڑھیں


آزاد حسین آزاد

February 13, 2023

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے Faiz Ahmad Faiz - Jashan e Faiz

 

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے

نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے

ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد

کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد

بہت ہے ظلم کے دست بہانہ جو کے لیے

جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں

بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی

کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں

ترے فراق میں یوں صبح و شام کرتے ہیں

بجھا جو روزن زنداں تو دل یہ سمجھا ہے

کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی

چمک اٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے

کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی

غرض تصور شام و سحر میں جیتے ہیں

گرفت سایۂ دیوار و در میں جیتے ہیں

یوں ہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق

نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی

یوں ہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول

نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی

اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے

ترے فراق میں ہم دل برا نہیں کرتے

گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے

یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں

گر آج اوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا

یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں

جو تجھ سے عہد وفا استوار رکھتے ہیں

علاج گردش لیل و نہار رکھتے ہیں