December 31, 2022

سال رواں کی خیر ہو

‏سب ہی کے گھر بسے رہیں سب کے مکاں کی خیر ہو
آ میرے دل دعا کریں سارے جہاں کی خیر ہو

 مژدہ ء نَو بہار میں موسمِ زرد نگار میں
حُسنِ وصال ہو کہ ہجر، امن و اماں کی خیر ہو

گزرے ہوئے دنوں کا حبس پھیل رہا ہے چار سُو
اب جو نئ ہوا چلے سالِ رواں کی خیر ہو
#2023 
‎#سلیم_کوثر


 

 

December 29, 2022

کیسے بتاؤں میں تمہیں میرے لئے تم کون ہو؟

کیسے بتاؤں میں تمہیں

تم دھڑکنوں کا گیت ہو

جیون کا تم سنگیت ہو

تم زندگی

تم بندگی

تم روشنی

تم تازگی

تم ہر خوشی

تم پیار ہو

تم پریت ہو من میت ہو

آنکھوں میں تم

یادوں میں تم

سانسوں میں تم

آہوں میں تم

نیندوں میں تم

👇




شکیبؔ دیپ سے لہرا رہے ہیں پلکوں پر

 ‏کنار آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی

گماں گزرتا ہے یہ شخص دوسرا ہے کوئی

ہوا نے توڑ کے پتہ زمیں پہ پھینکا ہے

کہ شب کی جھیل میں پتھر گرا دیا ہے کوئی

شکیبؔ دیپ سے لہرا رہے ہیں پلکوں پر

دیارِ چشم میں کیا آج رت جگا ہے کوئی


شکیب جلالی




Beautiful poetry lines -

 اداس موسم ، شکستہ چہرے ، اسیر دکھ ہے اخیر دکھ ہے

فقیر مجھ سے یہ کہہ رہا ہے اخیر دکھ ہے اخیر دکھ ہے


یہ جان لیوا حقیقتیں ہیں کہ ہجر وحشت کی آیتیں ہیں

مجھے لگا داستاں میں رانجھے کو ہیر دکھ ہے اخیر دکھ ہے


میں ایک منظر میں کھو گیا تھا مجھے تو ڈھونڈا ہے حیرتوں نے

مرے مصور کمال تیرا کبیر دکھ ہے اخیر دکھ ہے


ہمارا ماضی کھلا پڑا ہے کہ حال بے حال ہو گیا ہے

یہ آگہی کا عذاب ہے یہ ضمیر دکھ ہے اخیر دکھ ہے


میں اک طمانچہ ہوں روشنی کو، پلا بڑا ہوں میں ظلمتوں میں

کہ دائروں میں ہی کھو گیا ہوں لکیر دکھ ہے اخیر دکھ ہے


کوئی معوذ مجھے بتائے کہ رتجگوں میں سرور کیا ہے

کہ نیند کا قتل ہو رہا ہے شریر دکھ ہے اخیر دکھ ہے




December 28, 2022

حبیب جالب - میں نہیں مانتا

 ‏ظلم کی بات کو جہل کی رات کو 

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا 


تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر 

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا


ایسے دستور کو صبح بے نور کو 

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا 

*(حبیب جالب)*





December 27, 2022

December 26, 2022

او وی خوب ڈیہاڑے سن

 ‏او وی خوب دیہاڑے سن

بھک لگدی سی

منگ لیندے ساں

مل جاندا سی

کھا لیندے ساں

نئیں ملدا سی

تےرو پیندے ساں

روندے روندے سوں رہندے ساں


ایہہ وی خوب دیہاڑے نیں

بھگ لگدی اے

منگ نئیں سکدے

ملدا اے تے

کھا نئیں سکدے

نئیں ملدا تے

رو نئیں سکدے

ناں روئیے نے سوں نئیں سکدے

,نم دیدہ

 ‏نم دیدہ ہوں، کہ تیری خوشی پر ہوں خوش بہت

چل چھوڑ، تجھ سے کہہ جو دیا، رو نہیں رہا

یہ زخم جس کو وقت کا مرہم بھی کچھ نہیں

یہ داغ، سیلِ گریہ جسے دھو نہیں رہا

اب بھی ہے رنج، رنج بھی خاصا شدید ہے

وہ دل کو چیرتا ہوا غم گو نہیں رہا


عرفان ستار

ناصح

 ‏اڑ گئی یوں وفا زمانے سے۔۔۔۔۔۔۔ 

کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں 


ہم تو۔۔۔ دشمن کو دوست کر لیتے 

پر کریں کیا تیری خوشی ہی نہیں 


دل لگی۔۔۔۔۔ دل لگی نہیں ناصح 

تیرے دل کو ابھی لگی ہی نہیں 


داغؔ کیوں تم کو بے وفا کہتا 

وہ۔۔۔۔۔۔ شکایت کا آدمی ہی نہیں

December 25, 2022

 ‏اے نئے دوست میں سمجھوں گا تجھے بھی اپنا 

پہلے ماضی کا کوئی زخم تو ، بھر جانے دے 

زخم کتنے تری چاہت سے ملے ہیں مجھ کو 

سوچتا ہوں کہ کہوں تجھ سے ، مگر جانے دے

‏تمہارے شہر کی رونق بھی خوب تر ہے مگر جو میرے گاؤں کی شام ہے وہ تمام ہے

‏تمہارے شہر کی رونق بھی خوب تر ہے مگر
جو  میرے  گاؤں  کی  شام  ہے وہ  تمام  ہے



 

December 23, 2022

 ‏زندگی تجھ کو اگر وجد میں لاؤں واپس

چاک پہ کوزہ رکھوں، خاک بناؤں واپس

تھا تیرا حکم، سو جنت سے زمیں پر آیا

ہو گیا ختم تماشہ، تو میں جاؤں واپس؟

‎#اپنی_زبان_اردو

December 22, 2022

عیسیٰ کو ہو نوید ۔۔۔۔۔۔ کہ بیمار مر گیا

 ‏وہ جی گیا جو عشق میں جی سے گزر گیا 

عیسیٰ کو ہو نوید ۔۔۔۔۔۔ کہ بیمار مر گیا


ہاں سچ تو ہے۔۔۔۔ شکایتِ زخمِ جگر غلط 

دل سے گزر کے۔۔۔۔۔ تیر تمہارا کدھر گیا


 دل کا علاج کیجیے اب۔۔۔ یا نہ کیجیے 

اپنا جو کام تھا۔۔۔۔۔ وہ غمِ یار کر گیا 


فانی بدایونی

صوفی تجھے خبر ہی نہیں رازِ عشق

 ‏صوفی تجھے خبر ہی نہیں رازِ عشق کی 

آنا ہمارے پاس کبھی ہـــــــــم بتائیں گے 


ہــم خـود بتائیں گے تمہیں اپنی بـرائیاں

وہ اس لئے کہ لوگ تمہیں کــم بتائیں گے

December 21, 2022

Wasi Shah

 


کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ، کچھ نہ کہو، خاموش رہو - Ibn e Insha

 کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ، کچھ نہ کہو، خاموش رہو

اے لوگو خاموش رہو۔۔۔ ہاں اے لوگو، خاموش رہو

سچ اچھا، پر اس کے جلو میں، زہر کا ہے اک پیالا بھی
پاگل ہو؟ کیوں ناحق کو سقراط بنو، خاموش رہو

حق اچھا، پر اس کے لئے کوئی اور مرے تو اور اچھا
تم بھی کوئی منصور ہو جو سُولی پہ چڑھو؟ خاموش رہو

اُن کا یہ کہنا سورج ہی دھرتی کے پھیرے کرتا ہے
سر آنکھوں پر، سورج ہی کو گھومنے دو، خاموش رہو

مجلس میں کچھ حبس ہے اور زنجیر کا آہن چبھتا ہے
پھر سوچو، ہاں پھر سوچو، ہاں پھر سوچو، خاموش رہو

گرم آنسو اور ٹھنڈی آہیں ، من میں کیا کیا موسم ہیں
اس بگھیا کے بھید نہ کھولو، سیر کرو، خاموش رہو

آنکھیں موند کنارے بیٹھو، من کے رکھو بند کواڑ
انشا جی لو دھاگہ لو اور لب سی لو، خاموش رہو

‏اُس کے چہرے کی تمازت سے پگھلتے تھے حروف

 ‏اُس کے چہرے کی تمازت سے پگھلتے تھے حروف

جیسے کُـــــــــہسار پہ کِرنوں کے قبــــــــیلے اُترے.!! 


جیسے گُھـــــــل جائے خیالوں میں حِنا کا موسم

جیسے خوشبـــــــــــو کی طرح رنگ نشیلے اُترے.!!

ظالم دسمبر December

 ‏اک میری بات نہیں تھی سب کا درد دسمبر تھا

برف کے شہر میں رہنے والا اک اک فرد دسمبر تھا


پچھلے سال کے آخر میں بھی حیرت میں ہم تینوں تھے

اک میں تھا، اک تنہائی تھی، اک بے درد دسمبر تھا




December 20, 2022

شاکر شجاع آبادی

 ‏کیتا کئیں ؟ برباد ھے شاکر کوں

میتھوں اُلٹا یار سوال نا کر

میڈی ھر حسرت دا قاتل ھیں 

تیڈی مرضی جرم اقبال نا کر

اب تو میرے نگر میں سحر ہونی چاہیے

 تھوڑی سی اس طرف بھی نظر ہونی چاہیے

یہ زندگی تو مجھ سے بسر ہونی چاہیے وہ جانتا نہیں تو بتانا فضول ہے اس کو مرے غموں کی خبر ہونی چاہیے مسجد سے ہو رہی ہے عطاء فجر کی اذان اب تو میرے نگر میں سحر ہونی چاہیے

تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم میرا سلام کہیو اگر نامہ بر مل

 

تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم

میرا سلام کہیو اگر نامہ بر مل

تیرا ہر درد اس موسم میں بے حد پاس لگتا ہے... یہی وہ بات ہے جس سے دسمبر خاص لگتا ہے...

 تیرا ہر درد اس موسم میں بے حد پاس لگتا ہے...

یہی وہ بات ہے جس سے دسمبر خاص لگتا ہے...

December 19, 2022

‏کی محبت تو سیاست کا چلن چھوڑ دیا ہم اگر عشق نہ کرتے تو حکومت کرتے

 ‏کی محبت تو سیاست کا چلن چھوڑ دیا

ہم اگر عشق نہ کرتے تو حکومت کرتے

‏اُجرتیں مل گئی صدیوں کے سفر کی مجھ کو

جب کہا اُس نے ۔۔۔۔۔ کیا حال بنا رکھا ہے




اک شخص کر رھا ھے ابھی تک وفا کا ذکر کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی

 ہاں ٹھیک ہے میں اپنی انا کا مریض ہوں

آخر مرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی

اک شخص کر رھا ھے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی

‏‎سر بسر یار کی مرضی پہ فدا ہو جانا کیا غضب کام ہے راضی بہ رضا ہو جانا

 ‏‎سر بسر یار کی مرضی پہ فدا ہو جانا 

کیا غضب کام ہے راضی بہ رضا ہو جانا

بند آنکھو وہ چلے آئیں تو وا ہو جانا 

اور یوں پھوٹ کے رونا کہ فنا ہو جانا

عشق میں کام نہیں زور زبردستی کا 

جب بھی تم چاہو جدا ہونا' جدا ہو جانا

تیری جانب ہے بتدریج ترقی میری 

میرے ہونے کی ہے معراج تیرا ہو جانا

فیض

 ‏ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد

پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد


ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیئے

ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

عمل کا نام رشتہ ہے

 ‏اس بات سے بخوبی واقف رہو۔۔!!


کب

کیسے

اور

کس کے ساتھ تمہاری طبیعت سرشار ہوتی ہے۔

ہر وہ جو تمہیں تمہارا ہونے کا بتاتا ہے

کندھا نہیں بن سکتا۔

نہ ہی ہر وہ تمہارے لیے اپنا دل بچھاتا

کہ

یہاں ٹیک لگالو

جسے تم اپنی تھکاوٹ کا بتاتے ہو۔

میٹھے بول

لاڈ

ناز

اور

دعوے نہیں


عمل کا نام رشتہ ہے۔

Amazing Urdu poetry

 ‏اِتنا بکھرا ہوں ، اِکٹھا نہیں ہونے والا

اب تجھے چُھو کے بھی اچھا نہیں ہونے والا


زندگی کھول دے زنجیر مِرے پاؤں کی 

مجھ سے اب اور تماشا نہیں ہونے والا


‎#میثم_علی_آغا


December 18, 2022

جون ایلیا

 ‏دلِ برباد کو آباد کیا ہے میں نے 

آج مدت میں تمہیں یاد کیا ہے میں نے 


تلخیٔ دورِ گزشتہ کا تصور کر کے 

دل کو پھر مائلِ فریاد کیا ہے میں نے 


جون ایلیا

December 17, 2022

تیرے بعد کسی کا نام جان نہیں رکھا

 ‏بعد تیرے کسی کا میں نے دھیان نہیں رکھا۔۔!!

کسی کی عزت نہیں کی، مان نہیں رکھا۔


یوں تو رہے دسترس میں کئی عزیز لوگ بھی

"مگر بعد تیرے کسی کا نام جان نہیں رکھا۔"

کچھ حادثوں سے گر گئے محسن زمین پر ہم رشکِ آسمان تھے ابھی کل کی بات ہے

ہم یوسفِ زماں تھے ابھی کل کی بات ہے
تم ہم پہ مہرباں تھے ابھی کل کی بات ہے

وہ دن بھی تھے کہ ہم ہی تمہاری زباں پہ تھے
موضوعِ داستاں تھے ابھی کل کی بات ہے

جن دوستوں کی آج کمی ہے حیات میں
وہ اپنے درمیاں تھے ابھی کل کی بات ہے

کچھ حادثوں سے گھِر گیا محسن زمین پر

ہم رشکِ آسماں تھے ابھی کل کی بات ہے 


‏جن دوستوں کی کمی ہے آج حیات میں

وہ اپنے درمیاں تھے ابھی کل کی بات ہے

کچھ حادثوں سے گر گئے محسن زمین پر

ہم رشکِ آسمان تھے ابھی کل کی بات ہے

December 16, 2022

تو ساتھ اگر میرے

‏تو ساتھ اگر میرے 
خورشید و قمر میرے 

کیا دھوپ سے ناراضی 
تھے موم کے پر میرے 

ہے موت کا سناٹا 
خاموش نگر میرے 

اے خواب بکھر بھی جا 
اے شوق اتر میرے 

بے نام سے رستوں پر 
بے کار سفر میرے 

تو جان چھڑا اپنی 
سب ڈال دے سر میرے 




 

December 15, 2022

جون ایلیا

 ‏شہرِ یقیں میں اب کوئی دم خم نہیں رہا

دشتِ گماں کے خاک بسر خیریت سے ہیں

آخر ہے کون جو کسی پل کہہ سکے یہ بات

ﷲ اور تمام بشر خیریت سے ہیں

شاعر تو دو ہیں، میر تقی اور میر جونؔ

باقی جو ہیں وہ شام و سحر خیریت سے ہیں


‎#جون_ایلیا نقوی امروہوی

کلا م خواجہ غلام فرید

 ‏میں ہاں جے کوجھی تُوں سوھنڑاں جہاں دا

کوجھیاں کُوں چَھڈنا نئیں کم شاہاں دا

جے تُوں چھڈیسیں نئیں کوئی اساڈا

پاگل اکھیسن سڈیسن آواری

ہاڑا خدا دا


I don't want to beg. I know you can feel it, my longing, the aching, my need for love. I don't want to beg. But oh god, please. Love me!

شام کے بعد

 ‏‎تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ

تو کسی روز میرے گھر میں اتر شام کے بعد


لوٹ آئے نہ کسی روز وہ آوارہ مزاج

کھول رکھتے ہیں اسی آس پہ در شام کے بعد

‏‎‎عشق نے سیکھ ہی لی وقت کی تقسیم کہ اب


وہ مجھے یاد تو آتا ہے مگر کام کے بعد


ہندسے گِدھ کی طرح دن مِرا کھا جاتے ہیں


حرف ملنے مجھے آتے ہیں، ذرا شام کے بعد

December 14, 2022

‏کچھ لفظ تو زبان کی لکنت سے مر گئے 
باقی جو بچ گئے تھے وہ حیرت سے مر گئے



 

 

December 13, 2022

- دسمبر نام ہے جس کا - اتباف ابرک December naam hay jis ka

 بکھرتے رابطوں کا ہے، بچھڑتے راستوں کا ہے

دسمبر نام ہے جس کا مہینہ حادثوں کا ہے


کہیں ہے آس کا بادل کہیں یادوں کی بوندیں ہیں

مچلتی خواہشوں کا ہے ، یہ موسم بارشوں کا ہے


وہی مے کش ہوائیں ہیں وہی گم صم فضائیں ہیں

مری پُر امن دنیا میں یہ موسم سازشوں کا ہے


پرانے عارضے سارے، امڈ آئے ہیں آنکھوں میں

یہ موسم ہے سرابوں کا یہ موسم وسوسوں کا ہے


وہی سب رت جگے ابرک، وہی تیرے گلے ابرک

کہ اُس کے بعد بھی ہر پل اُسی کی وحشتوں کا ہے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتباف ابرک

گلزار - مکمل نظم Gulzar - Mukamal Nazam

 ‏مکمل نظم

نظم اُلجھی ہوئی ہے سینے میں

شعر اٹکے ہوئے ہیں ہونٹوں پر

لفظ کاغذ پہ بیٹھتے ہی نہیں

اُڑتے پھرتے ہیں تتلیوں کی طرح

کب سے بیٹھا ہوا ہوں میں جانم

سادہ کاغذ پہ لکھ کے نام ترا

بس ترا نام ہی مکمل ہے

اس سے بہتر بھی نظم کیا ہوگی !





آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا


 

آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا

وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا

اتنا مانوس نہ ہو خلوت غم سے اپنی

تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا

ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں

میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا

زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا

تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا

ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ

ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا



 

December 12, 2022

سکون قلب تم سے ہے

 ‏🌟 ‎
سُکُونِ قلب تُم سے ہے، سُکُونِ جاں بھی تُم ہو
تعجُّب ہے کہ سِینے میں جہاں دِل ہے وہاں تُم ہو

سمائی ہے تیری ہستی میری ہستی میں کُچھ ایسے
کہ لگتا ہے کُچھ ایسے، جہاں میں ہُوں وہاں تُم ہو
🌸🌸🌸

میرے ہم نفس، میرے ہمنوا

 ‏مرےہم نفس ،مرےہم نوا ، مجھے دوست بن کے دغا نہ دے

میں ہوں دردِعشق سے جاں بلب مجھے زندگی کی دعا نہ دے


نہ یہ زندگی مری زندگی ، نہ یہ داستاں مری داستاں

میں خیال و وہم سے دور ہوں ، مجھے آج کوئی صدا نہ دے


‎#شکیل_بدایونی

December 11, 2022

جدائی

 ‏کانچ آنکھوں میں چبھونا تو نہیں بنتا ہے 

پھر وہی خواب پرونا تو نہیں بنتا ہے 


عین ممکن ہے ترا لمس کرامت کر دے 

ورنہ پیتل کبھی سونا تو نہیں بنتا ہے 


جب کہ خود تو نے جدائی کو چنا اپنے لئے 

پھر یہ ہر شب ترا رونا تو نہیں بنتا ہے  


ڈاکٹر ساجد رحیم

دیکھ میرا ہاتھ اور بتا دست شناس

 ‏ہوش کا کتنا تناسب ہو؟ بتا دے مُجھ کو،

اور اِس عشق میں درّکار ہے، وحشت کتنی؟


دیکھ یہ ہاتھ میرا اور بتا دَست شناس

رِزق کتنا ہے مُقدر میں ، محبّت کتنی ؟


‎#مجید_اختر

December 10, 2022

Bashir Badar - بشیر بدر

 ‏ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا 

تمہیں جس نے دل سے بھلا دیا اسے بھولنے کی دعا کرو 


مجھے اشتہار سی لگتی ہیں یہ محبتوں کی کہانیاں 

جو کہا نہیں وہ سنا کرو جو سنا نہیں وہ کہا کرو 


‎#بشیر_بدر

Mohsin Naqvi best poetry محسن نقوی

 ‏‎‎سنتا تھا وہ بھی سب سے پرانی کہانیاں

شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی


تنہا ہوا سفر میں تو مجھ پہ کھلا یہ بھید

سائے سے پیار دھوپ سے نفرت اسے بھی تھی


محسنؔ میں اس سے کہہ نہ سکا یوں بھی حال دل

درپیش ایک تازہ مصیبت اسے بھی تھی


محسن نقوی💔

 ‏عجیب آشوب وضع داری ہمارے اعصاب پر ہے طاری 

لبوں  پہ  ترتیب خوش کلامی  دلوں میں تنظیم  نوحہ خوانی 

ہمارے  لہجے  میں یہ  توازن  بڑی  صعوبت  کے  بعد آیا 

کئی مزاجوں کے  دشت دیکھے کئی  رویوں کی خاک چھانی 

عزم بہزاد

December 09, 2022

 ‏اے سمندر ! ترے کم ظرف حوالے نہ گئے

ناؤ بھر لوگ مرے تجھ سے سنبھالے نہ گئے

خواب میں ایک سفر اور تھا درپیش مجھے

میں گیا , ساتھ مگر پاؤں کے چھالے نہ گئے

تم نے اک حرفِ تسلی نہ کہا ، جاتے ہوئے 

تم سے دو اشک دکھاوے کے نکالے نہ گئے

December 08, 2022

 ‏ستم کہیئے ،کرم کہیئے ،وفا کہیئے ،جفا کہیئے

عجب اُن کی ادائیں ہیں جو کہیئے بھی تو کیا کہیئے


نہ اب وہ بات کرتے ہیں ، نہ اب وہ بات سنتے ہیں 

جو سُنیے بھی تو کیا سُنیے جو کہیئے بھی تو کیا کہیئے


‎#نصیرالدین_نصیر

December 01, 2022

میں آنکھیں جو ذرا کھولوں

 میں آنکھیں جو ذرا کھولوں

کلیجہ منہ کو آتا ہے
سڑک پر سرد راتوں میں
پڑے ہیں برف سے بچے
دسمبر لوٹ آیا ہے
عمر (ر) اب بھی نہیں آیا
کسی کی بے رِدا بیٹی
لہو میں ڈوب کر بولی
کوئی پہرہ نہیں دیتا
مِری تاریک گلیوں میں
میں سب کچھ ہار بیٹھی ہوں
درندوں کی حکومت میں
عمر (ر) اب بھی نہیں آیا



Beautiful Poetry

 وہ حُسن یوں اس دل کی عدالت سے بری ہے

قیدی ہے مگر قید کی مُدّت سے بری ہے آئینے کو مُہلت ہے ذرا اور سنور جائے یہ آنکھ ابھی منصبِ حیرت سے بری ہے جب چاہے مرے حجرۂِ خلوت میں چلا آئے معشوق ہے اور میری اجازت سے بری ہے عارف امام