May 31, 2023

 ‏بارش کی برستی بوندوں نے

جب دستک دی دروازے پر

محسوس ہوا ۔۔۔۔ تم آئے ہو

انداز تمھارے جیسا تھا


ہوا کے ہلکے جھونکے کی

جب آہٹ پائی کھڑکی پر

محسوس ہوا ۔۔ تم گزرے ہو

احساس تمھارے جیسا تھا


میں نے جو گرتی بوندوں کو

جب روکنا چاہا ہاتھوں پر

اک سرد سا پھر احساس ہوا

وہ لمس تمھارے جیسا تھا


تنہا میں چلا جب بارش میں

تب اک جھونکے نے ساتھ دیا

میں سمجھا تم ہو ساتھ میرے

وہ ساتھ تمھارے جیسا تھا


پھر رک سی گئی وہ بارش بھی

باقی نہ رہی اک آہٹ بھی

میں سمجھا مجھے تم چھوڑ گئے

انداز تمھارے جیسا تھا

 ‏یہ بارشیں بھی تُم سی ھیں

جو برس گئیں تو بہار ھیں

جو ٹھہر گئیں تو قرار ھیں

کبھی آ گئیں یونہی بے سبب

کبھی چھا گئیں یونہی روز و شب

کبھی شور ھیں کبھی چُپ سی ھیں

کبھی بُوند بُوند میں غم سی ھیں

یہ بارشیں بھی تُم سی ھیں

May 30, 2023

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں

اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں


اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں

میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں


زندگی موت تیری منزل ہے

دوسرا کوئی راستہ ہی نہیں


سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے

جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں


زندگی اب بتا کہاں جائیں

زہر بازار میں ملا ہی نہیں


جس کے کارن فساد ہوتے ہیں

اس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں


چاہے سونے کے فریم میں جڑ دو

آئینہ جھوٹ بولتا ہی نہیں


اسے اپنے فردا کی فکر تھی، جو میرا واقفِ حال تھا

وہ جو اس کی صبحِ عروج تھی، وہی میرا وقتِ زوال تھا


میرا درد کیسے وہ جانتا، میری بات کیسے وہ مانتا

وہ تو خود فنا کے سفر میں تھا، اُسے روکنا بھی محال تھا


کہاں جاؤ گے مجھے چھوڑ کر، میں یہ پوچھ پوچھ کے تھک گیا

وہ جواب مجھ کو نہ دے سکا، وہ خود سراپا سوال تھا


وہ جو اس کے سامنے آگیا، وہی روشنی میں نہا گیا

عجب اس کی ہیبتِ حسن تھی، عجب اس کا رنگِ جمال تھا


دمِ واپسی اسے کیا ہوا، نہ وہ روشنی نہ وہ تازگی

وہ ستارہ کیسے بکھر گیا، وہ تو آپ اپنی مثال تھا


وہ ملا تو صدیوں کے بعد بھی، میرے لب پہ کوئی گلہ نہ تھا

اُسے میری چپ نے رلا دیا، جسے گفتگو میں کمال تھا


میرے ساتھ لگ کے وہ رو دیا، اور مجھے فقط اتنا وہ کہہ سکا

جسے جانتا تھا میں زندگی، وہ تو صرف وہم و خیال تھا

May 29, 2023

 ‏فرض کرو ہم اہلِ وفا ہوں

فرض کرو دیوانے ہوں

فرض کرو یہ دونوں باتیں

جُھوٹی ھوں افسانے ہوں


فرض کرو یہ جی کی بپتا

جی سے جوڑ سنائی ہو 

فرض کرو ابھی اور ہو اُتنی

آدھی ہم نے چُھپائی ہو 


فرض کرو تمہیں خوش کرنے کے

ڈھونڈے ہم نے بہانے ہوں

فرض کرو یہ نین تمہارے

سَچ مُچ کے میخانے ہوں

May 26, 2023

 ‏اِک بیر، نہ اِک مہر، نہ اِک ربط نہ رشتہ 

تیرا کوئی اپنا، نہ پرایا کوئی میرا 


مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے 

لیکن میرے دل یہ تو فقط ایک ہی گھڑی ہے 

ہمت کرو جینے کو تو اِک عمر پڑی ہے


فیض احمد فیض ♥️

May 25, 2023

Shakir Shuja abadi

 ‏اساں اجڑے لوک مقدراں دے

ویران نصیب دا حال نہ پچھ

توں شاکر آپ سیانا ایں

ساڈا چہرہ پڑھ حالات نہ پچھ


شاکر شجاع آبادی

 ‏جب ترا حکم ملا ترک محبت کر دی

دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی


تجھ سے کس طرح میں اظہار تمنا کرتا

لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کر دی


میں تو سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے

تو نے جا کر تو جدائی مری قسمت کر دی


تجھ کو پوجا ہے کہ اصنام پرستی کی ہے

میں نے وحدت کے مفاہیم کی کثرت کر دی


مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ بھی پیار آتا ہے

تری الفت نے محبت مری عادت کر دی


پوچھ بیٹھا ہوں میں تجھ سے ترے کوچے کا پتہ

تیرے حالات نے کیسی تری صورت کر دی


کیا ترا جسم ترے حسن کی حدت میں جلا

راکھ کس نے تری سونے کی سی رنگت کر دی


احمد ندیم قاسمی

May 24, 2023

Parveen Shakir

 ‏کمال ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی

میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاؤں گی


سپرد کر کے اسے چاندنی کے ہاتھوں میں

میں اپنے گھر کے اندھیروں کو لوٹ آؤں گی


بدن کے کرب کو وہ بھی سمجھ نہ پائے گا

میں دل میں روؤں گی آنکھوں میں مسکراؤں گی


وہ کیا گیا کہ رفاقت کے سارے لطف گئے

میں کس سے روٹھ سکوں گی کسے مناؤں گی


اب اس کا فن تو کسی اور سے ہوا منسوب

میں کس کی نظم اکیلے میں گنگناؤں گی


وہ ایک رشتۂ بے نام بھی نہیں لیکن

میں اب بھی اس کے اشاروں پہ سر جھکاؤں گی


بچھا دیا تھا گلابوں کے ساتھ اپنا وجود

وہ سو کے اٹھے تو خوابوں کی راکھ اٹھاؤں گی


سماعتوں میں گھنے جنگلوں کی سانسیں ہیں

میں اب کبھی تری آواز سن نہ پاؤں گی


جواز ڈھونڈ رہا تھا نئی محبت کا

وہ کہہ رہا تھا کہ میں اس کو بھول جاؤں گی


پروین شاکر

May 21, 2023

Faiz Ahmad Faiz

 ‏نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی 

تم آشنا تھے تو تھیں آشنائیاں کیا کیا 


جدا تھے ہم تو میسر تھیں قربتیں کتنی 

بہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کیا کیا 


پہنچ کے در پہ ترے کتنے معتبر ٹھہرے 

اگرچہ رہ میں ہوئیں جگ ہنسائیاں کیا کیا 


ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے 

بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا 


ستم پہ خوش کبھی لطف و کرم سے رنجیدہ 

سکھائیں تم نے ہمیں کج ادائیاں کیا کیا


فیض احمد فیضؔ

May 18, 2023

 ‏کبھی انتظار لمحہ سرِ شام رکھ دیا ہے

کبھی دل اٹھا کے ہم نے ، ترے نام رکھ دیا یے


ترے رُخ کی چاندنی کا ، کبھی نام صبح رکھا

تری چشمِ سُر مگیں کا ، کبھی شام رکھ دیا ھے


تجھے سانس سانس بُننا ، یہی مشغلہ ھے دل کا

یہی بندگی چُنی ہے یہی کام رکھ دیا ہے 


نسرین سید

May 12, 2023

‏جو ہیں بے خطا، وہی دربدر

 ‏جو ہیں بے خطا، وہی دربدر

یہ عجیب طرزِ نصاب ہے

جو گنہ کریں، وہی معتبر

یہ عجیب روزِ حساب ہے


یہ عجیب رت ہے بہار کی

کہ ہر ایک زیرِ عتاب ہے

’’کہیں پر شکستہ ہے فاختہ

کہیں زخم زخم گلاب ہے‘‘


مرے دشمنوں کو جواب ہے

نہیں غاصبوں پہ شفیق مَیں

مرے حاکموں کو خبر کرو

نہیں آمروں کا رفیق مَیں

May 06, 2023

اتباف ابرک

 یہ رنج کب تک ملال کب تک

یہ زنگ بستہ سوال، کب تک


عروج پائے گی یہ زمیں کب

زوال ہو گا زوال کب ٹک


خود اپنا جینا بھی جی سکیں ہم

ہماری ہو گی مجال کب تک


وہ جس کے وعدے پہ جی رہے ہیں

رسد وہ ہو گی بحال کب تک


بھلا نہیں تو بہت برا ہو 

کہ ایک جیسے ہی سال کب تک


وہ جس سے عیدِ حیات ہو گی 

دکھائی دے گا ہلال کب تک


کوئی مقابل بھی آئے ابرک

یہ آستیں والی چال کب تک


۔۔ اتباف ابرک

May 04, 2023

 ‏قصے میری الفت کے جو مرقوم ہیں سارے

آ دیکھ تیرے نام سے موسوم ہیں سارے


بس اس لیے ہر کام اَدُھورا ہی پڑا ہے

خادم بھی میری قوم کے مخدوم ہیں سارے


اب کون میرے پاؤں کی زنجیر کو کھولے

حاکم میری بستی کے بھی محکوم ہیں سارے


شاید یہ ظرف ہے جو خاموش ہوں اب تک

ورنہ تو تیرے عیب بھی معلوم ہیں سارے


ہر جرم میری ذات سے منسوب ہیں محسن

کیا میرے سوا شہر میں معصوم ہیں سارے


محسن نقوی

May 03, 2023

 ‏اشک آنکھوں میں چھپاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

 بوجھ پانی کا اٹھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں


پاؤں رکھتے ہیں جو مجھ پر انہیں احساس نہیں

 میں نشانات مٹاتے ہوئے تھک جاتا ہوں


برف ایسی کہ پگھلتی نہیں پانی بن کر

 پیاس ایسی کہ بجھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں


اچھی لگتی نہیں اس درجہ شناسائی بھی

 ہاتھ ہاتھوں سے ملاتے ہوئے تھک جاتا ہوں


غمگساری بھی عجب کار محبت ہے کہ میں

 رونے والوں کو ہنساتے ہوئے تھک جاتا ہوں


اتنی قبریں نہ بناؤ میرے اندر محسن

 میں چراغوں کو جلاتے ہوئے تھک جاتا ہوں


محسن نقوی

May 02, 2023

 ‏چل انشاء اپنے گاؤں میں


یہاں اُلجھے اُلجھے رُوپ بہت

پر اصلی کم، بہرُوپ بہت

اس پیڑ کے نیچے کیا رُکنا

جہاں سایہ کم ہو، دُھوپ بہت

چل انشاء اپنے گاؤں میں

بیٹھیں گے سُکھ کی چھاؤں میں


کیوں تیری آنکھ سوالی ہے؟

یہاں ہر اِک بات نرالی ہے

اِس دیس بسیرا مت کرنا

یہاں مُفلس ہونا گالی ہے

چل انشاء اپنے گاؤں میں

بیٹھیں گے سُکھ کی چھاؤں میں


جہاں سچے رشتے یاریوں کے

جہاں گُھونگھٹ زیور ناریوں کے

جہاں جھرنے کومل سُکھ والے

جہاں ساز بجیں بِن تاروں کے

چل انشاء اپنے گاؤں میں

بیٹھیں گے سُکھ کی چھاؤں میں


ابنِ انشاء

 ‏مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا

اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا


گرا دیا ہے تو ساحل پہ انتظار نہ کر

اگر وہ ڈوب گیا ہے تو دور نکلے گا


اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف

ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا


یقیں نہ آئے تو اک بات پوچھ کر دیکھو

جو ہنس رہا ہے وہ زخموں سے چور نکلے گا


اس آستین سے اشکوں کو پوچھنے والے

اس آستین سے خنجر ضرور نکلے گا


امیر قزلباش