July 17, 2023

 ‏گریز   شب   سے،  سحر   سے   کلام   رکھتے   تھے

کبھی وہ دن تھے کہ زلفوں میں شام  رکھتے  تھے


تمھارے  ہاتھ  لگے   ہیں  تو  جو   کرو   سو  کرو

وگرنہ  تم   سے   تو   ہم   سو  غلام   رکھتے  تھے


ہمیں  بھی  گھیر  لیا  گھر  کے  زعم  نے  تو  کھلا

کچھ اور  لوگ  بھی  اس  میں  کلام  رکھتے  تھے


یہ  اور   بات   ہے   ہمیں   دوستی   نہ   راس   آئی

ہوا  تھی  ساتھ   تو   خوشبو   مقام  رکھتے   تھے


نجانے  کون  سی  رت  سے  بچھڑ   گئے  وہ  لوگ

جو   اپنے  دل   میں    بہت   مقام    رکھتے   تھے


وہ  آ تو جاتا  کبھی  ہم  تو  اس  کے  رستوں پر

دیئے تو  جلائے  ہوئے  صبح  و  شام  رکھتے  تھے


نوشی گیلانی

July 10, 2023

 ‏تو نے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد

کتنے چپ چاپ سے لگتے ہیں شجر شام کے بعد


اتنے چپ چاپ کہ رستے بھی رہیں گے لا علم

چھوڑ جائیں گے کسی روز نگر شام کے بعد


میں نے ایسے ہی گنہ تیری جدائی میں کئے

جیسے طوفاں میں کوئی چھوڑ دے گھر شام کے بعد


شام سے پہلے وہ مست اپنی اڑانوں میں رہا

جس کے ہاتھوں میں تھے ٹوٹے ہوئے پر شام کے بعد


رات بیتی تو گنے آبلے اور پھر سوچا

کون تھا باعث آغاز سفر شام کے بعد


تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ

تو کسی روز مرے گھر میں اتر شام کے بعد


لوٹ آئے نہ کسی روز وہ آوارہ مزاج

کھول رکھتے ہیں اسی آس پہ در شام کے بعد


فرحت عباس شاہ

July 09, 2023

 ‏شام تک صبح کی نظروں سے اتر جاتے ہیں

اتنے سمجھوتوں پہ جیتے ہیں کہ مر جاتے ہیں


پھر وہی تلخئ حالات مقدر ٹھہری

نشے کیسے بھی ہوں کچھ دن میں اتر جاتے ہیں


اک جدائی کا وہ لمحہ کہ جو مرتا ہی نہیں

لوگ کہتے تھے کہ سب وقت گزر جاتے ہیں


گھر کی گرتی ہوئی دیواریں ہی مجھ سے اچھی

راستہ چلتے ہوئے لوگ ٹھہر جاتے ہیں


ہم تو بے نام ارادوں کے مسافر ہیں وسیمؔ

کچھ پتہ ہو تو بتائیں کہ کدھر جاتے ہیں


وسیم بریلوی


میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے

جب وہ کِھلتے گلاب جیسا تھا

اُس کی پلکوں سے نیند چَھنتی تھی

اُس کا لہجہ شراب جیسا تھا

اُس کی زلفوں سے بھیگتی تھی گھٹا

اُس کا رُخ ماہتاب جیسا تھا

لوگ پڑھتے تھے خال و خد اُس کے

وہ ادب کی کتاب جیسا تھا

بولتا تھا زبان خوشبو کی

لوگ سنتے تھے دھڑکنوں میں اُسے


میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے

ساری آنکھیں تھیں آئینے اُس کے

سارے چہروں میں انتخاب تھا وہ

سب سے گھل مل کے اجنبی رہنا

ایک دریا نما سراب تھا وہ

خواب یہ ہے کہ وہ حقیقت تھا

یہ حقیقت ہے، کوئی خواب تھا وہ

دل کی دھرتی پہ آسماں کی طرح

صورتِ سایہ و سحاب تھا وہ

اپنی نیندیں اُسی کی نذر ہوئیں

میں نے پایا تھا رتجگوں میں اُسے


یہ مگر دیر کی کہانی ہے

یہ مگر دور کا فسانہ ہے

اُس کے میرے ملاپ میں حائل

اب تو صدیوں بھرا زمانہ ہے

اب تو یوں ہے کہ حال اپنا بھی

دشتِ ہجراں کی شام جیسا ہے

کیا خبر اِن دنوں وہ کیسا ہے؟


محسن نقوی

July 08, 2023

 ‏ہمارا کیا ہے کہ ہم تو چراغ ِ شب کی طرح

اگر جلے بھی تو بس اتنی روشنی ہو گی

کہ جیسے تند اندھیروں کی راہ میں جگنو

ذرا سی دیر کو چمکے، چمک کے کھو جائے

پھر اس کے بعد کسی کو نہ کچھ سمجھائی دے

نہ شب کٹے نہ سراغ سحر دکھائی دے


 محسنؔ نقوی

 ‏مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ

سورج ہوں، میرا رنگ مگر دن ڈھلے بھی دیکھ


ہر چند راکھ ہو کے بکھرنا ہے راہ میں

جلتے ہوئے پروں سے اڑا ہوں مجھے بھی دیکھ


عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر

دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ


تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں

آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ


بچھتی تھیں جس کی راہ میں پھولوں کی چادریں

اب اس کی خاک گھاس کے پیروں تلے بھی دیکھ


کیا شاخ باثمر ہے جو تکتا ہے فرش کو

نظریں اٹھا شکیبؔ کبھی سامنے بھی دیکھ


شکیب جلالی

July 02, 2023

 ‏مری زیست پُر مسرت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی 

کوئی بہتری کی صورت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی


وہ جو بے رخی کبھی تھی وہی بے رخی ہے اب تک 

مرے حال پر عنایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی 


وہ جو حکم دیں بجا ہے ، مرا ہر سخن خطا ہے 

انہیں میری رو رعایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی 


جو ہے گردشوں نے گھیرا، تو نصیب ہے وہ میرا 

مجھے آپ سے شکایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی 


ترے در سے بھی نباہے ، در غیر کو بھی چاہے 

مرے سر کو یہ اجازت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی 


ترا نام تک بھلا دوں ، تری یاد تک مٹا دوں 

مجھے اس طرح کی جرأت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

 

میں یہ جانتے ہوئے بھی ، تری انجمن میں آیا 

کہ تجھے مری ضرورت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

 

تو اگر نظر ملائے ، مرا دم نکل ہی جائے 

تجھے دیکھنے کی ہمت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی 


ترا حسن ہے یگانہ ، ترے ساتھ ہے زمانہ 

مرے ساتھ میری قسمت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی 


یہ کرم ہے دوستوں کا، وہ جو کہہ رہے ہیں سب سے 

کہ نصیرؔ پر عنایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی


پیر نصیر الدین شاہ نصیر رحمتہ اللہ

July 01, 2023

محسن نقوی

 ‏کچھ ذکر کرو اُس موسم کا جب رم جھم رات رسیلی تھی

جب صُبح کا رُوپ رُو پہلا تھا جب شام بہت شرمیلی تھی


جب پھول مہکتی راہوں پر قدموں سے گجر بج اُٹھتے تھے

جب تن میں سانس کے سرگم کی ہر دیپک تان سُریلی تھی


جب خواب سراب جزیروں میں خوش فہم نظر گھُل جاتی تھی

جب پیار پوَن کے جھونکوں سے ہر یاد کی موج تشیلی تھی


اَمرت کی مہک تھی باتوں میں نفرت کے شرر تھے پلکوں پر

وہ ہونٹ نہایت میٹھے تھے وہ آنکھ بہت زہریلی تھی   


محسن اُس شہر میں مرنے کو اَب اس کے سوا کچھ یاد نہیں

کچھ زہر تھا شہر کے پانی میں کچھ خاک کی رنگت نیلی تھی


محسن نقوی