July 09, 2023


میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے

جب وہ کِھلتے گلاب جیسا تھا

اُس کی پلکوں سے نیند چَھنتی تھی

اُس کا لہجہ شراب جیسا تھا

اُس کی زلفوں سے بھیگتی تھی گھٹا

اُس کا رُخ ماہتاب جیسا تھا

لوگ پڑھتے تھے خال و خد اُس کے

وہ ادب کی کتاب جیسا تھا

بولتا تھا زبان خوشبو کی

لوگ سنتے تھے دھڑکنوں میں اُسے


میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے

ساری آنکھیں تھیں آئینے اُس کے

سارے چہروں میں انتخاب تھا وہ

سب سے گھل مل کے اجنبی رہنا

ایک دریا نما سراب تھا وہ

خواب یہ ہے کہ وہ حقیقت تھا

یہ حقیقت ہے، کوئی خواب تھا وہ

دل کی دھرتی پہ آسماں کی طرح

صورتِ سایہ و سحاب تھا وہ

اپنی نیندیں اُسی کی نذر ہوئیں

میں نے پایا تھا رتجگوں میں اُسے


یہ مگر دیر کی کہانی ہے

یہ مگر دور کا فسانہ ہے

اُس کے میرے ملاپ میں حائل

اب تو صدیوں بھرا زمانہ ہے

اب تو یوں ہے کہ حال اپنا بھی

دشتِ ہجراں کی شام جیسا ہے

کیا خبر اِن دنوں وہ کیسا ہے؟


محسن نقوی

No comments:

Post a Comment