April 20, 2023

 

مری جان خانہ بدوش کو وہ سکوں ملا ترے شہر سے

کہ میں کوچ کرنے کے بعد بھی نہ بچھڑ سکا ترے شہر سے

میں سحاب بن کے ہواؤں میں تجھے ڈھونڈھتا تھا فضاؤں میں

سو ترے مکاں پہ برس پڑا جو گزر ہوا ترے شہر سے

تری رہ گزر سے لگاؤ تھا ترے آستاں پہ پڑاؤ تھا

ترا حکم تھا کہ سفر کروں سو میں چل پڑا ترے شہر سے

نہ وہ بجلیاں تھیں جمال کی نہ وہ بارشیں تھیں وصال کی

کئی حسرتوں سے اٹا ہوا میں گزر گیا ترے شہر سے

مرا نخل ذات اجڑ گیا میں تری زمیں سے اکھڑ گیا

کوئی گرد باد جنون کا مجھے لے اڑا ترے شہر سے

کہیں تخلیئے کو جو پا لیا وہیں بوریے کو بچھا لیا

میں نے کوہ و دشت کی خلوتوں کا مزہ لیا ترے شہر سے

میں دیار غیر میں اجنبی کبھی اس گلی کبھی اس گلی

میں تری گلی کا اسیر تھا مجھے عشق تھا ترے شہر سے

نہ میں کوہ کن نہ میں قیس تھا میں ترے نگر کا اویسؔ تھا

انہیں بندمن سے تھیں نسبتیں مرا سلسلہ ترے شہر سے

No comments:

Post a Comment