ختم ہوتا سفر نہیں لگتا
اب دعا میں اثر نہیں لگتا
اس کی آنکھوں کو دیکھ رکھا ہے
اب سمندر سے ڈر نہیں لگتا
قافلہ جس طرح بھٹکتا ہے
راہبر، راہبر نہیں لگتا
کیوں وہ ٹھہرا ہے دیکھ کر مجھ کو
کچھ بھی میرا اگر نہیں لگتا
بھول جانے میں وقت لگتا ہے
اس قدر تو مگر نہیں لگتا
No comments:
Post a Comment