October 29, 2022

مجھےخط ملا ہےغنیم کا

 مجھےخط ملا ہےغنیم کا

بڑی عجلتوں میں لکھاہوا کہیں رنجشوں کی کہانیاں کہیں دھمکیوں کا ہےسلسلہ مجھےکہہ دیا ہےامیر نے کرو حسنِ یار کا تذکرہ تمہیں کیا پڑی ہےکہ رات دن کہوحاکموں کو برا بھلا تمہیں فکرِ عمرِ عزیز ہے تو نہ حاکموں کوخفا کرو جو امیرِ شہر کہےتمہیں
وہی شاعری میں کہا کرو

کوئی واردات کہ دن کی ہو کوئی سانحہ،کسی رات ہو نہ امیرِ شہر کا ذکر ہو نہ غنیمِ وقت کی بات ہو کہیں تارتار ہوں عصمتیں مرےدوستوں کو نہ دوش دو جو کہیں ہو ڈاکہ زنی اگر تو نہ کوتوال کا نام لو کسی تاک میں ہیں لگےہوئے مرے جاں نثار گلی گلی ہیں مرے اشارے کے منتظر مرے عسکری، مرے لشکری

جو تمہارے جیسے جوان تھے کبھی میرے آگے رکے نہیں انہیں اس جہاں سے اٹھا دیا وہ جو میرے آگے جھکے نہیں جنہیں جان و مال عزیز تھے وہ تو میرے ڈر سے پگھل گئے جو تمہاری طرح اٹھے بھی تو انہیں بم کے شعلے نگل گئے مرے جاں نثاروں کو حکم ہے کہ گلی گلی یہ پیام دیں

No comments:

Post a Comment