کوئی اینج دا جادو کر ڈھولا
میں یاد کراں تو کول ہوویں
ہن بس کر روسے آہ ونج سجناں
تیڈی یاد اچ ساری مکدی پئی ہے
میں سُنڑیاں ہے زندگی ول نہیں لبھنی
تائییوں تیری یاد اچ سڑدی پہیئ ہے
کوئی اینج دا جادو کر ڈھولا
میں یاد کراں تو کول ہوویں
ہن بس کر روسے آہ ونج سجناں
تیڈی یاد اچ ساری مکدی پئی ہے
میں سُنڑیاں ہے زندگی ول نہیں لبھنی
تائییوں تیری یاد اچ سڑدی پہیئ ہے
ساڈے اجڑے دل دا حال نہ پوچھ
متاں پہلا مجرم توں ہوویں
تیڈے پچھے رولتی میں ذندگی توں
میکو وی چھڈ کے ٹر پیا ہیں
ایڈی گل تہ یار کوئی نائی ہوئی
ایوے رس کے تو وی ٹر پیا ہے
Pakistan army and the civil administration continue restoration work at Gurdwara Darbar Sahib at Kartarpur after it was flooded last week, the state-run Radio Pakistan reports.
PDMA Director General Irfan Ali Kathia has said that 41 people have lost their lives in the floods, while eight have been injured.
During a press conference a day earlier, he warned that Punjab is facing the biggest flood in its history, with the ninth spell of the monsoon predicted to bring more rain over the next two days.
He added that no new flood surge had entered Head Marala, but after the rains, the water in Leh Nullah at Katariyyan has reached up to 19 feet.
Kathia said that there is no threat to Trimmu Headworks and noted that water from the Chenab would enter Multan within the next 12 hours, where it would merge with floodwaters from the Ravi.
احمد فراز (1931–2008) اردو کے مقبول ترین شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری میں محبت، جدائی، درد اور انسانی جذبات کا گہرا عکس ملتا ہے۔ ان کی مشہور ترین غزلوں میں سے ایک “رنجش ہی سہی” ہے جو آج بھی محبت کرنے والوں کے دلوں کو چھو لیتی ہے۔ اس بلاگ میں ہم احمد فراز کی یہ مشہور غزل اصل اردو متن اور انگریزی ترجمے کے ساتھ پیش کر رہے ہیں تاکہ اردو اور غیر اردو پڑھنے والے دونوں اس سے لطف اندوز ہو سکیں۔
میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا
قرعۂ فال مرے نام کا اکثر نکلا تھا جنہیں زعم وہ دریا بھی مجھی میں ڈوبے میں کہ صحرا نظر آتا تھا سمندر نکلا میں نے اس جان بہاراں کو بہت یاد کیا جب کوئی پھول مری شاخ ہنر پر نکلا شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا تو یہیں ہار گیا ہے مرے بزدل دشمن مجھ سے تنہا کے مقابل ترا لشکر نکلا میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فرازؔ ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا احمد فرازکبھی اُن کا نام لینا کبھی اُن کی بات کرنا مرا ذوق اُن کی چاہت، مرا شوق اُن پہ مرنا وہ کسی کی جھیل آنکھیں وہ میری جُنوں مزاجی کبھی ڈُوبنا اُبھر کر کبھی ڈُوب کر اُبھرنا ترے منچلوں کا جگ میں یہ عجب چلن رہا ہے نہ کسی کی بات سُننا، نہ کسی سے بات کرنا شب غم نہ پُوچھ کیسے ترے مبتلا پہ گزری کبھی آہ بھر کے گرنا کبھی گر کے آہ بھرنا وہ تری گلی کے تیور وہ نظر نظر پہ پہرے وہ مرا کسی بہانے تجھے دیکھتے گزرنا کہاں میرے دل کی حسرت کہاں میری نارسائی کہاں تیرے گیسوؤں کا ترے دوش پر بکھرنا تجھے دیکھ کر نہ جانے ابھی کیوں ہیں لوگ زندہ ہے عجیب بد مذاقی تجھے دیکھ کر نہ مرنا ترے سامنے سے آ کر کوئی آئینہ ہٹا دے کہ بڑھا رہا ہے اُلجھن تری زلف کا سنورنا مرا آشیاں جلا دے نہیں اِس کا خوف، لیکن نہ قفس میں قید کر کے مرے بال و پر کترنا چلے لاکھ چال دُنیا، ہو زمانہ لاکھ دشمن جو تری پناہ میں ہو اُسے کیا کسی سے ڈرنا وہ کریں گے ناخدائی تو لگے گی پار کشتی ہے نصیرؔ ورنہ مشکل ترا پار یُوں اُترنا پیر نصیر الدین نصیر
ساکوں بال کے شاکر ہتھ سیکیں
اساں راہ دے کَکھ تیڈے کم اساں
تیڈے بعد تہ ساڈہ کوئی نہیں شاکر ہن ہک تو ہی ساڈی جندجان ہے
Tedy
baad ta sada koi nai shakir hun hik tu hi sadi jynd jaan hy
ہن بس کر روسے آہ ونج سجناں تیڈی یاد اچ ساری مکدی پئی ہے میں سُنڑیاں ہے زندگی ول نہیں لبھنی تائییوں تیری یاد اچ سڑدی پہیئ ہے
Hun bas
kar rosy a wanj sajna tedi yaad ech sari mukdi pai hy my sunya hy zindagi wl
nai labhni taiyo teri yaad ech sardi pai hy
ساڈے اجڑے دل دا حال نہ پوچھ
متاں پہلا مجرم توں ہوویں
تیڈے پچھے رولتی میں ذندگی توں میکو وی چھڈ کے ٹر پیا ہیں ایڈی گل تہ یار کوئی نائی ہوئی ایوے رس کے تو وی ٹر پیا ہے
Tedy
pichy roolti my zindagi tu meku wi chad ky tur piya hen aydi gal Ta yaar koi
nai hoi ewy rus ky tu wi tur peya hen
ساڈے اجڑے دل دا حال نہ پوچھ
متاں پہلا مجرم توں ہوویں
تیڈے پچھے رولتی میں ذندگی توں میکو وی چھڈ کے ٹر پیا ہیں ایڈی گل تہ یار کوئی نائی ہوئی ایوے رس کے تو وی ٹر پیا ہے
ہن بس کر روسے آہ ونج سجناں تیڈی یاد اچ ساری مکدی پئی ہے میں سُنڑیاں ہے زندگی ول نہیں لبھنی تائییوں تیری یاد اچ سڑدی پہیئ ہے
تیڈے بعد تہ ساڈہ کوئی نہیں شاکر ہن ہک تو ہی ساڈی جندجان ہے
جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی
حالات کا ماتم تھا ملاقات کہاں تھی
اس نے نہ ٹھہرنے دیا پہروں مرے دل کو
جو تیری نگاہوں میں شکایت مری جاں تھی
گھر میں بھی کہاں چین سے سوئے تھے کبھی ہم
جو رات ہے زنداں میں وہی رات وہاں تھی
یکساں ہیں مری جان قفس اور نشیمن
انسان کی توقیر یہاں ہے نہ وہاں تھی
شاہوں سے جو کچھ ربط نہ قائم ہوا اپنا
عادت کا بھی کچھ جبر تھا کچھ اپنی زباں تھی
صیاد نے یونہی تو قفس میں نہیں ڈالا
مشہور گلستاں میں بہت میری فغاں تھی
تو ایک حقیقت ہے مری جاں مری ہم دم
جو تھی مری غزلوں میں وہ اک وہم و گماں تھی
محسوس کیا میں نے ترے غم سے غم دہر
ورنہ مرے اشعار میں یہ بات کہاں تھی
(حبیب جالب)
یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں
تمام تیری حکایتیں ہیں
یہ تذکرے تیرے لطف کے ہیں
یہ شعر تیری شکایتیں ہیں
میں سب تری نذر کر رہا ہوں
یہ ان زمانوں کی ساعتیں ہیں
جو زندگی کے نئے سفر میں
تجھے کسی وقت یاد آئیں
تو ایک اک حرف جی اٹھے گا
پہن کے انفاس کی قبائیں
اداس تنہائیوں کے لمحوں
میں ناچ اٹھیں گی یہ اپسرائیں
مجھے ترے درد کے علاوہ بھی
اور دکھ تھے یہ مانتا ہوں
ہزار غم تھے جو زندگی کی
تلاش میں تھے یہ جانتا ہوں
مجھے خبر تھی کہ تیرے آنچل میں
درد کی ریت چھانتا ہوں
مگر ہر اک بار تجھ کو چھو کر
یہ ریت رنگ حنا بنی ہے
یہ زخم گلزار بن گئے ہیں
یہ آہ سوزاں گھٹا بنی ہے
یہ درد موج صبا ہوا ہے
یہ آگ دل کی صدا بنی ہے
اور اب یہ ساری متاع ہستی
یہ پھول یہ زخم سب ترے ہیں
یہ دکھ کے نوحے یہ سکھ کے نغمے
جو کل مرے تھے وہ اب ترے ہیں
جو تیری قربت تری جدائی
میں کٹ گئے روز و شب ترے ہیں
وہ تیرا شاعر ترا مغنی
وہ جس کی باتیں عجیب سی تھیں
وہ جس کے انداز خسروانہ تھے
اور ادائیں غریب سی تھیں
وہ جس کے جینے کی خواہشیں بھی
خود اس کے اپنے نصیب سی تھیں
نہ پوچھ اس کا کہ وہ دوانہ
بہت دنوں کا اجڑ چکا ہے
وہ کوہ کن تو نہیں تھا لیکن
کڑی چٹانوں سے لڑ چکا ہے
وہ تھک چکا تھا اور اس کا تیشہ
اسی کے سینے میں گڑ چکا ہے