اداس موسم ، شکستہ چہرے ، اسیر دکھ ہے اخیر دکھ ہے
فقیر مجھ سے یہ کہہ رہا ہے اخیر دکھ ہے اخیر دکھ ہے
یہ جان لیوا حقیقتیں ہیں کہ ہجر وحشت کی آیتیں ہیں
مجھے لگا داستاں میں رانجھے کو ہیر دکھ ہے اخیر دکھ ہے
میں ایک منظر میں کھو گیا تھا مجھے تو ڈھونڈا ہے حیرتوں نے
مرے مصور کمال تیرا کبیر دکھ ہے اخیر دکھ ہے
ہمارا ماضی کھلا پڑا ہے کہ حال بے حال ہو گیا ہے
یہ آگہی کا عذاب ہے یہ ضمیر دکھ ہے اخیر دکھ ہے
میں اک طمانچہ ہوں روشنی کو، پلا بڑا ہوں میں ظلمتوں میں
کہ دائروں میں ہی کھو گیا ہوں لکیر دکھ ہے اخیر دکھ ہے
کوئی معوذ مجھے بتائے کہ رتجگوں میں سرور کیا ہے
کہ نیند کا قتل ہو رہا ہے شریر دکھ ہے اخیر دکھ ہے
No comments:
Post a Comment