یہ جمال کیا یہ جلال کیا یہ عروج کیا یہ زوال کیا
وہ جو پیڑ جڑ سے اکھڑ گیا اسے موسموں کا ملال کیا
وہ جو لمحہ لمحہ بکھر گیا وہ جو اپنی حد سے گزر گیا
اسے فکر شام و سحر ہو کیا اسے رنجش مہ و سال کیا
وہ جو بے نیاز سا ہو گیا وہ جو ایک راز سا ہو گیا
جسے کچھ غرض ہی نہیں رہی اسے دست حرف سوال کیا
ہوا ریزہ ریزہ جو دل ترا اسے جوڑ جوڑ کے مت دکھا
وہ جو اپنے حسن میں مست ہے اسے آئنے کا خیال کیا
وہی ہجر رات کی بات ہے وہی چاند تاروں کا ساتھ ہے
جو فراق سے ہوا آشنا اسے آرزوئے وصال کیا
کسی اور سے کریں کیوں گلہ ہمیں اپنے آپ سے دکھ ملا
وہ جو درد دل سے ہو آشنا اسے دنیا بھر کا وبال کیا
وہی گرد گرد غبار ہے وہی چاروں اور فشار ہے
وہ جو خود کو بھی نہیں جانتا وہ ہو میرا واقف حال کیا
اسے سعدؔ کیسا بتائیں ہم اسے کس سے جا کے ملائیں ہم
وہ تو خود سراپا مثال ہے یہ گلاب کیا یہ غزال کیا
سعداللہ شاہ
No comments:
Post a Comment