اور آہستہ کیجیے باتیں
دَھڑکنیں کوئی سُن رہا ہو گا
لفظ گِرنے نہ پائیں ہونٹوں سے
وقت کے ہاتھ اُن کو چُن لیں گے
کان رکھتے ہیں یہ در و دیوار
راز کی ساری بات سُن لیں گے۔
اور آہستہ کیجیے باتیں
دَھڑکنیں کوئی سُن رہا ہو گا
آئیے بند کر لیں دروازے
رات سَپنے چُرا نہ لے جائے
کوئی جَھونکا ہوا کا آوارہ
دِِل کی باتوں کو اُڑا نہ لے جائے۔
اور آہستہ کیجیے باتیں
دَھڑکنیں کوئی سُن رہا ہو گا
ایسے بولو کہ دِل کا افسانہ
دِل سُنے اور نِگاہ دُہرائے
اپنے چاروں طرف کی یہ دُنیا
سانس کا شور بھی نہ سُن پائے
اور آہستہ کیجیے باتیں
دَھڑکنیں کوئی سُن رہا ہو گا
ظفرؔ گورکھپوری
No comments:
Post a Comment