زمیں پہ پھینک دے مجھ کو کہ آسمان میں رکھ
ترا صحیفہ ہوں تو چاہے جس جہان میں رکھ
فلک کو رنگ بدلنے میں دیر لگتی نہیں
زمین پر بھی نظر اپنی ہر اڑان میں رکھ
خبر نہیں تجھے کب چھوڑنا پڑے ساحل
ہوا کو باندھ کے تو اپنے بادبان میں رکھ
جوان تو بھی ہے میں بھی ہوں شب ہے، ایسا کر
خدا کے نام کی تلوار درمیان میں رکھ
سکوں ملے گا تو اندر کا شخص جاگے گا
سفر تمام نہ کر جسم کو تکان میں رکھ
خبر ہے گرم کہ طوفان آنے والا ہے
قدم نہ بھول کے گرتے ہوئے مکان میں رکھ
لہو بہے گا تو صدیوں پہ پھیل جائے گا
لہو بہانے سے پہلے یہ بات دھیان میں رکھ
ہمارے دور نے ہم کو یہی سکھایا ہے
ہو دل میں زہر مگر چاشنی زبان میں رکھ
No comments:
Post a Comment