March 27, 2023


زمیں پہ پھینک دے مجھ کو کہ آسمان میں رکھ
ترا صحیفہ ہوں تو چاہے جس جہان میں رکھ

فلک کو رنگ بدلنے میں دیر لگتی نہیں
زمین پر بھی نظر اپنی ہر اڑان میں رکھ

خبر نہیں تجھے کب چھوڑنا پڑے ساحل
ہوا کو باندھ کے تو اپنے بادبان میں رکھ
جوان تو بھی ہے میں بھی ہوں شب ہے، ایسا کر
خدا کے نام کی تلوار درمیان میں رکھ
سکوں ملے گا تو اندر کا شخص جاگے گا
سفر تمام نہ کر جسم کو تکان میں رکھ
خبر ہے گرم کہ طوفان آنے والا ہے
قدم نہ بھول کے گرتے ہوئے مکان میں رکھ
لہو بہے گا تو صدیوں پہ پھیل جائے گا
لہو بہانے سے پہلے یہ بات دھیان میں رکھ
ہمارے دور نے ہم کو یہی سکھایا ہے
ہو دل میں زہر مگر چاشنی زبان میں رکھ

No comments:

Post a Comment