March 30, 2023

 ‏کرو کج جبیں پہ سر کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو

کہ غرور عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلا دیا


ادھر ایک حرف کہ کشتنی یہاں لاکھ عذر تھا گفتنی

جو کہا تو سن کے اڑا دیا جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا


جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے

رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا

 ‏سر  صحرا  مسافر  کو  ستارہ  یاد  رہتا  ہے

میں چلتا ہوں مجھے چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے


تمہارا  ظرف  ہے  تم کو محبت بھول جاتی ہے

ہمیں تو جس نے ہنس کر بھی پکارا یاد رہتا ہے


محبت میں جو ڈوبا ہو اسے ساحل سے کیا لینا

کسے  اس  بحر  میں  جا  کر  کنارہ یاد رہتا ہے


بہت لہروں کو پکڑا ڈوبنے والے کے ہاتھوں نے

یہی  بس  ایک  دریا  کا  نظارہ  یاد  رہتا  ہے


صدائیں ایک سی یکسانیت میں ڈوب جاتی ہیں

ذرا  سا  مختلف  جس  نے  پکارا  یاد  رہتا  ہے


میں کس تیزی سے زندہ ہوں میں یہ تو بھول جاتا ہوں

نہیں   آنا  ہے   دنیا   میں   دوبارہ   یاد   رہتا  ہے


عدیم ہاشمی

March 27, 2023


زمیں پہ پھینک دے مجھ کو کہ آسمان میں رکھ
ترا صحیفہ ہوں تو چاہے جس جہان میں رکھ

فلک کو رنگ بدلنے میں دیر لگتی نہیں
زمین پر بھی نظر اپنی ہر اڑان میں رکھ

خبر نہیں تجھے کب چھوڑنا پڑے ساحل
ہوا کو باندھ کے تو اپنے بادبان میں رکھ
جوان تو بھی ہے میں بھی ہوں شب ہے، ایسا کر
خدا کے نام کی تلوار درمیان میں رکھ
سکوں ملے گا تو اندر کا شخص جاگے گا
سفر تمام نہ کر جسم کو تکان میں رکھ
خبر ہے گرم کہ طوفان آنے والا ہے
قدم نہ بھول کے گرتے ہوئے مکان میں رکھ
لہو بہے گا تو صدیوں پہ پھیل جائے گا
لہو بہانے سے پہلے یہ بات دھیان میں رکھ
ہمارے دور نے ہم کو یہی سکھایا ہے
ہو دل میں زہر مگر چاشنی زبان میں رکھ

March 26, 2023

 

دل کے معاملات سے انجان تو نہ تھا

اس گھر کا فرد تھا کوئی مہمان تو نہ تھا


تھیں جن کے دَم سے رونقیں شہروں میں جا بسے

ورنہ ہمارا گاؤں یوں ویران تو نہ تھا


بانہوں میں جب لیا اسے نادان تھا ضرور

جب چھوڑ کر گیا مجھے نادان تو نہ تھا


کٹ تو گیا ہے کیسے کٹا یہ نہ پوچِھیے

یارو! سفر حیات کا آسان تو نہ تھا


نیلام گھر بنایا نہیں اپنی ذات کو

کمزور اس قدر میرا ایمان تو نہ تھا


رسماً ہی آ کے پوچھتا فاروقؔ حالِ دل

کچھ اس میں اس کی ذات کا نقصان تو نہ تھا


فاروق روکھڑی

 ‏کوئی سوغات وفا دے کے چلا جاؤں گا

تجھ کو جینے کی ادا دے کے چلا جاؤں گا


میرے دامن میں اگر کچھ نہ رہے گا باقی

اگلی نسلوں کو دعا دے کے چلا جاؤں گا


تیری راہوں میں مرے بعد نہ جانے کیا ہو

میں تو نقش کف پا دے کے چلا جاؤں گا


میری آواز کو ترسے گا ترا رنگ محل

میں تو اک بار صدا دے کے چلا جاؤں گا


میرا ماحول رلاتا ہے مجھے آج مگر

تم کو ہنسنے کی فضا دے کے چلا جاؤں گا


باعث امن و محبت ہے اگر میرا لہو

قطرہ قطرہ بخدا دے کے چلا جاؤں گا


عمر بھر بخل کا احساس رلائے گا تمہیں

میں تو سائل ہوں دعا دے کے چلا جاؤں گا


میرے اجداد نے سونپی تھی جو مجھ کو رزمیؔ

نسل نو کو وہ قبا دے کے چلا جاؤں گا


مظفر رزمی

March 25, 2023

 ‏وہ عکس بن کے مری چشم تر میں رہتا ہے

عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے


وہی ستارہ شب غم کا اک ستارہ ںہے

وہ اک ستارہ جو چشم سحر میں رہتا ہے


کھلی فضا کا پیامی ہوا کا باسی ہے

کہاں وہ حلقۂ دیوار و در میں رہتا ہے


جو میرے ہونٹوں پہ آئے تو گنگناؤں اسے

وہ شعر بن کے بیاض نظر میں رہتا ہے


گزرتا وقت مرا غم گسار کیا ہو گا

یہ خود تعاقب شام و سحر میں رہتا ہے


مرا ہی روپ ہے تو غور سے اگر دیکھے

بگولہ سا جو تری رہ گزر میں رہتا ہے


نہ جانے کون ہے جس کی تلاش میں بسملؔ

ہر ایک سانس مرا اب سفر میں رہتا ہے


بسمل صابری

بارشوں کے موسم میں

 بارشوں کے موسم میں ​

تم کو یاد کرنے کی​

عادتیں پرانی ہیں​

اب کی بار سوچا ہے​

عادتیں بدل ڈالیں​

پھر خیال آیا کہ​

عادتیں بدلنے سے​

بارشیں نہیں رکتیں۔۔۔۔

March 23, 2023

Rahat indori

 ‏ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے

جان ہوتی تو مری جان لٹاتے جاتے


اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے

عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے


اب کے مایوس ہوا یاروں کو رخصت کر کے

جا رہے تھے تو کوئی زخم لگاتے جاتے


رینگنے کی بھی اجازت نہیں ہم کو ورنہ

ہم جدھر جاتے نئے پھول کھلاتے جاتے


میں تو جلتے ہوئے صحراؤں کا اک پتھر تھا

تم تو دریا تھے مری پیاس بجھاتے جاتے


مجھ کو رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید

لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے


ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے

کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے


راحت اندوری

March 21, 2023

 ‏منسوب چراغوں سے، طرفدار ہوا کے

ہم لوگ منافق ہیں، منافق بھی بَلا کے


کیوں ضبط کی بنیاد ہلانے پہ تُلا ہے ؟

میں پھینک نہ دوں ہجر، تجھے آگ لگا کے


اک زود فراموش کی بے فیض محبت

جاوں گا گزرتے ہوئے راوی میں بہا کے


اس وقت مجھے عمرِ رواں، درد بہت ہے

تجھ سے میں نمٹتا ہوں، ذرا دیر میں آکے.

 اسیں لکھ نمازاں نیتِیاں

اسیں سجدے کِیتے لکھ

اسیں پکھّو وِچھڑے ڈار دے

اسیں اپنے آپ توں وَکھ

اسیں ویکھیا دِل مخلُوق دا

دِل بُوھے بُوھے رکھ

اسیں راتاں کٹِیاں جاگ کے

لگ بارِیاں نال کھلو

ساڈے ساہ وِچ صَبر دی چاشنی

ساڈی رگاں دے وِچ خَشبو

اسیں خالی کھوکھے ذات دے

سانُوں چُنجاں مارن کاں

March 19, 2023

 ‏ترکِ تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں 

لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں 


حالات کے طلسم نے پتھرا دیا مگر 

بیتے سموں کی یاد میں کھویا نہ تو نہ میں 


ہر چند اختلاف کے پہلو ہزار تھے 

وا کر سکا مگر لب گویا نہ تو نہ میں 


نوحے فصیلِ ضبط سے اونچے نہ ہو سکے 

کھل کر دیارِ سنگ میں رویا نہ تو نہ میں

 

جب بھی نظر اٹھی تو فلک کی طرف اٹھی 

بر گشتہ آسمان سے گویا نہ تو نہ میں


خالد احمد 

March 17, 2023

 ‏جس کو دیکھو' وہ جُدائی سے ڈراتا ہے مجھے

اِس مَحبّت میں کوئی دوسرا ڈر ہے کہ نہیں ؟


وہ بَھلا شخص بُرا لگنے لگا جانے کیوں

اُس نے پوچھا تھا تمہارا کوئی گھر ہے کہ نہیں ؟


ہاں مجھے حال سنانے میں نہیں عار کوئی

آپ کے بس میں مگر دیدہؑ تر ہے کہ نہیں؟


لیاقت علی عاصِمؔ

March 16, 2023

 ‏لاکھ  دوری   ہو   مگر  عہد  نبھاتے  رہنا

جب بھی بارش ہو میرا سوگ مناتے رہنا


تم گئے ہو تو سرِ شام یہ عادت ٹھہری

بس  کنارے پہ  کھڑے  ہاتھ ہلاتے رہنا


جانے  اس  دل  کو  یہ  آداب کہاں سے آئے

اس کی راہوں میں نگاہوں کو بچھاتے رہنا


ایک مدت سے یہ معمول ہوا ہے اب تو

آپ  ہی   روٹھنا   اور  آپ  مناتے  رہنا


تم کو معلوم ہے فرحتؔ کہ یہ پاگل پن ہے

دور  جاتے  ہوئے  لوگوں  کو   بلاتے  رہنا


فرحت عباس شاہ

Rahat Indori

 ‏امیر شہر ! تیری طرح قیمتی پوشاک

میری گلی میں بھکاری پہن کے آتے ہیں


یہی عقیق تھے شاہوں کے تاج کی زینت

جو انگلیوں میں مداری پہن کے آتے ہیں


ہمارے جسم کے داغوں پہ تبصرہ کرنے

قمیضیں لوگ، ہماری پہن کے آتے ہیں


راحت اندوری

 ‏کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا

میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا


تیرا در چھوڑ کے میں اور کدھر جاؤں گا

گھر میں گھر جاؤں گا صحرا میں بکھر جاؤں گا


تیرے پہلو سے جو اٹھوں گا تو مشکل یہ ہے

صرف اک شخص کو پاؤں گا جدھر جاؤں گا


اب ترے شہر میں آؤں گا مسافر کی طرح

سایۂ ابر کی مانند گزر جاؤں گا


تیرا پیمان وفا راہ کی دیوار بنا

ورنہ سوچا تھا کہ جب چاہوں گا مر جاؤں گا


چارہ سازوں سے الگ ہے مرا معیار کہ میں

زخم کھاؤں گا تو کچھ اور سنور جاؤں گا


اب تو خورشید کو گزرے ہوئے صدیاں گزریں

اب اسے ڈھونڈنے میں تا بہ سحر جاؤں گا


زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیمؔ

بجھ تو جاؤں گا مگر صبح تو کر جاؤں گا


احمد ندیم قاسمی

Habib Jalib

 ‏ہجوم دیکھ کے رستہ نہیں بدلتے ہم

کسی کے ڈر سے تقاضا نہیں بدلتے ہم


ہزار زیرِ قدم راستہ ہو خاروں کا

جو چل پڑیں تو ارادہ نہیں بدلتے ہم


اسی لیے تو نہیں معتبر زمانے میں

کہ رنگ صورتِ دنیا نہیں بدلتے ہم


ہوا کو دیکھ کے جالبؔ مثالِ ہم عصراں

بجا یہ زُعم ہمارا نہیں بدلتے ہم


حبیب جالب

 ‏‎خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن

اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو


ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال

کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو


خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

March 15, 2023

 ‏مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے

وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے


جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے

اے مکاں بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے


اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے

اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے


روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جگ بیت گئے

عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے


دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن

عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے


احمد مشتاق

March 13, 2023

Dagh dehlvi

 ‏عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا

کبھی جان صدقے ہوتی کبھی دل نثار ہوتا


کوئی فتنہ تا قیامت نہ پھر آشکار ہوتا

ترے دل پہ کاش ظالم مجھے اختیار ہوتا


جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا

تمہیں منصفی سے کہہ دو تمہیں اعتبار ہوتا


غم عشق میں مزا تھا جو اسے سمجھ کے کھاتے

یہ وہ زہر ہے کہ آخر مے خوش گوار ہوتا


یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی

نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا


نہ مزا ہے دشمنی میں نہ ہے لطف دوستی میں

کوئی غیر غیر ہوتا کوئی یار یار ہوتا


ترے وعدے پر ستم گر ابھی اور صبر کرتے

اگر اپنی زندگی کا ہمیں اعتبار ہوتا


یہ وہ درد دل نہیں ہے کہ ہو چارہ ساز کوئی

اگر ایک بار مٹتا تو ہزار بار ہوتا


گئے ہوش تیرے زاہد جو وہ چشم مست دیکھی

مجھے کیا الٹ نہ دیتے جو نہ بادہ خوار ہوتا


مجھے مانتے سب ایسا کہ عدو بھی سجدے کرتے

در یار کعبہ بنتا جو مرا مزار ہوتا


تمہیں ناز ہو نہ کیونکر کہ لیا ہے داغؔ کا دل

یہ رقم نہ ہاتھ لگتی نہ یہ افتخار ہوتا


داغ دہلو

Ibne e Insha

 ‏فرض کرو ہم اہل وفا ہوں، فرض کرو دیوانے ہوں 

فرض کرو یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں 


فرض کرو یہ جی کی بپتا جی سے جوڑ سنائی ہو 

فرض کرو ابھی اور ہو اتنی آدھی ہم نے چھپائی ہو 


فرض کرو تمہیں خوش کرنے کے ڈھونڈھے ہم نے بہانے ہوں 

فرض کرو یہ نین تمہارے سچ مچ کے مے خانے ہوں 


فرض کرو یہ روگ ہو جھوٹا جھوٹی پیت ہماری ہو 

فرض کرو اس پیت کے روگ میں سانس بھی ہم پر بھاری ہو 


فرض کرو یہ جوگ بجوگ کا ہم نے ڈھونگ رچایا ہو 

فرض کرو بس یہی حقیقت باقی سب کچھ مایا ہو 


دیکھ مری جاں کہہ گئے باہو کون دلوں کی جانے 'ہو' 

بستی بستی صحرا صحرا لاکھوں کریں دوانے 'ہو' 


جوگی بھی جو نگر نگر میں مارے مارے پھرتے ہیں 

کاسہ لیے بھبوت رمائے سب کے دوارے پھرتے ہیں 


شاعر بھی جو میٹھی بانی بول کے من کو ہرتے ہیں 

بنجارے جو اونچے داموں جی کے سودے کرتے ہیں 


ان میں سچے موتی بھی ہیں، ان میں کنکر پتھر بھی 

ان میں اتھلے پانی بھی ہیں، ان میں گہرے ساگر بھی 


گوری دیکھ کے آگے بڑھنا سب کا جھوٹا سچا 'ہو' 

ڈوبنے والی ڈوب گئی وہ گھڑا تھا جس کا کچا 'ہو' 


ابن انشاء

 ‏میرے لیے تو حرفِ دُعا ہو گیا وہ شخص 

سارے دُکھوں کی جیسے دوا ہو گیا وہ شخص 


میں آسماں پہ تھا تو زمیں کی کشش تھا وہ 

اُترا زمین پر تو ہوا ہو گیا وہ شخص 


سوچوں بھی اب اُسے تو تخیل کے پر جلیں 

مُجھ سے جُدا ہوا تو خُدا ہو گیا وہ شخص 


سب اشک پی گیا مرے اندر کا آدمی

میں خشک ہو گیا ہوں ہرا ہو گیا وہ شخص 


میں اُس کا ہاتھ دیکھ رہا تھا کہ دفعتاً 

سِمٹا سِمٹ کے رنگِ حِنا ہو گیا وہ شخص 


پِھرتا ہے لے کے آنکھ کا کشکول دربدر

دِل کا بھرم لُٹا تو گدا ہو گیا وہ شخص


یوں بھی نہیں کہ پاس ہے میرے وہ ہم نفس 

یہ بھی غلط کہ مُجھ سے جُدا ہو گیا وہ شخص 


پڑھتا تھا میں نماز سمجھ کر اُسے رشیدؔ 

پھر یوں ہوا کہ مُجھ سے قضا ہو گیا وہ شخص 


رشیدؔ قیصرانی

March 12, 2023

دستور - زہرہ نگار Dastoor zuhra nigar

 ‏”دستور"


سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے

سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا

درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے

ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں

تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر

کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے

سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے

سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں

بئے کے گھونسلے کا گندمی رنگ لرزتا ہے

تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں

کبھی طوفان آ جائے، کوئی پل ٹوٹ جائے تو

کسی لکڑی کے تختے پر

گلہری، سانپ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں

سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے

خداوندا! جلیل و معتبر! دانا و بینا منصف و اکبر!

مرے اس شہر میں اب جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر!


زہرہ نگاہ

March 09, 2023

Mohsin Naqvi Poetry

 ‏بھڑکائیں مری پیاس کو اکثر تری آنکھیں

صحرا مرا چہرا ہے سمندر تری آنکھیں


پھر کون بھلا داد تبسم انہیں دے گا

روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تری آنکھیں


خالی جو ہوئی شام غریباں کی ہتھیلی

کیا کیا نہ لٹاتی رہیں گوہر تیری آنکھیں


بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن

کھلتی ہیں بہت دل میں اتر کر تری آنکھیں


اب تک مری یادوں سے مٹائے نہیں مٹتا

بھیگی ہوئی اک شام کا منظر تری آنکھیں


ممکن ہو تو اک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں

پھر اوڑھ نہ لیں خواب کی چادر تری آنکھیں


میں سنگ صفت ایک ہی رستے میں کھڑا ہوں

شاید مجھے دیکھیں گی پلٹ کر تری آنکھیں


یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسنؔ

وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تری آنکھیں


محسن نقوی

March 08, 2023

Mastoor Anwer Poetry

 ‏ہم کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پھر سہی

کس نے توڑا دل ہمارا یہ کہانی پھر سہی


دل کے لٹنے کا سبب پوچھو نہ سب کے سامنے

نام آئے گا تمھارا یہ کہانی پھر سہی


نفرتوں کے تیر کھا کر دوستوں کے شہر میں

ہم نے کس کس کو پکارا یہ کہانی پھر سہی


کیا بتائیں پیار کی بازی وفا کی راہ میں

کون جیتا کون ہارا یہ کہانی پھر سہی


مسرور انور

March 06, 2023

Farhat Abbas Shah Poetry

 ‏ساڈی دل دے ہتھ مُہار

اَسی ڈھونڈن  نِکلے یار

اَسی ہسدے پُھل گلاب

اَسی روندے زار و قطار

ساڈی جِت دا راز اسان

اَسی کدی نا منی ہار


فرحت عباس شاہ

اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت

 

اٹھ صبح ہوئی مرغ چمن نغمۂ سرا دیکھ

نور سحر و حسن گل و لطف ہوا دیکھ

دو چار فرشتوں پہ بلا آئے گی نا حق

اے غیرت ناہید نہ ہو نغمہ سرا دیکھ

منت سے مناتے ہیں مجھے میں نہیں منتا

اوضاع ملک دیکھ اور اطوار‌ گدا دیکھ

گر بو الہوسی یوں تجھے باور نہیں آتی

اک مرتبہ اغیار کے قابو میں تو آ دیکھ

اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت

دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ

اک دم کے نہ ملنے پہ نہیں ملتے ہیں مجھ سے

اے شیفتہؔ مایوسیٔ امید فضا دیکھ

Mohsin Naqvi - Ujray hoye logon se gurezan na hua ker

 

اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر

کیا جانئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے

خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر

اس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں تو ہوں گے

وہ جھوٹ نہ بولے گا مرے سامنے آ کر

ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے

تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر

وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے

ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر

اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے

تو حلقۂ یاراں میں بھی محتاط رہا کر

اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسنؔ

دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر