تُمہارے شہر کا موسم بڑا سُہانا لگے
میں ایک شام چُرا لوں اگر بُرا نہ لگے
تُمہارے بس میں اگر ہو تو بُھول جاؤ ہمیں
تُمہیں بُھلانے میں شاید مُجھے زمانہ لگے
ہمارے پیار سے جلنے لگی ہے اِک دنیا
دُعا کرو کسی دشمن کی بد دُعا نہ لگے
نہ جانے کیا ہے کسی کی اُداس آنکھوں میں
وہ مُنہ چُھپا کے بھی جائے تو بے وفا نہ لگے
جو ڈوبنا ہے تو اتنے سکون سے ڈوبو
کہ آس پاس کی لہروں کو بھی پتا نہ لگے
تُو اِس طرح سے میرے ساتھ بے وفائی کر
کہ تیرے بعد مُجھے کوئی بے وفا نہ لگے
وہ پُھول جو میرے دامن سے ہو گئے منسوب
خدا کرے انہیں بازار کی ہوا نہ لگے
تم آنکھ مُوند کے پی جاؤ زندگی قیصرؔ
کہ ایک گھونٹ میں شاید یہ بدمزا نہ لگے
قیصرؔ الجعفری
No comments:
Post a Comment