August 28, 2023

 ‏اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر


کیا جانئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے

خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر


اس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں تو ہوں گے

وہ جھوٹ نہ بولے گا مرے سامنے آ کر


ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے

تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر


وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے

ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر


اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے

تو حلقۂ یاراں میں بھی محتاط رہا کر


اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسنؔ

دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر


محسن نقوی

August 27, 2023

 ‏ڈاکٹر پیر زادہ قاسم صاحب کی ایک خوبصورت غزل


اک سزا اور اسیروں کو سنا دی جائے

یعنی اب جرم اسیری کی سزا دی جائے


دست نادیدہ کی تحقیق ضروری ہے مگر

پہلے جو آگ لگی ہے وہ بجھا دی جائے


اس کی خواہش ہےکہ اب لوگ نہ روئیں نہ ہنسیں

بے حسی وقت کی آواز بنا دی جائے


صرف سورج کا نکلنا ہے اگر صبح تو پھر

ایک شب اور مری شب سے ملا دی جائے


اور اک تازہ ستم اس نے کیا ہے ایجاد

اس کو اس بار ذرا کھل کے دعا دی جائے


ڈاکٹر پیر زادہ قاسم

August 26, 2023

 ‏تو چھوڑ رہا ہے تو خطا اس میں تری کیا 

ہر شخص مرا ساتھ نبھا بھی نہیں سکتا 


پیاسے رہے جاتے ہیں زمانے کے سوالات 

کس کے لیے زندہ ہوں بتا بھی نہیں سکتا 


ویسے تو اک آنسو ہی بہا کر مجھے لے جائے 

ایسے کوئی طوفان ہلا بھی نہیں سکتا

August 23, 2023

 ‏یہ عجیب فصلِ فراق ہے

کہ نہ لب پہ حرفِ طلب کوئی

نہ اداسیوں کا سبب کوئی


نہ ہجومِ درد کے شوق میں

کوئی زخم اب کے ہَرا ہُوا

نہ کماں بدست عدُو ہُوئے

نہ ملامتِ صفِ دُوستاں

پہ یہ دل کسی سے خفا ہُوا


وہی ہم سخن ہے رفیقِ جاں

وہی ہم سخن جسے دل کہیں

وہ تو یوں بھی کب کا اُداس ہے


محسن نقوی

August 16, 2023

Best Starus

 ‏گرد ہے چاروں طرف، قافلہ کوئی نہیں 

فاصلوں کا شہر ہے، راستہ کوئی نہیں


ہر مکیں ہے اجنبی ہر نظر نا آشنا

ہم سفر ہیں ہر قدم، ہم نوا کوئی نہیں

August 05, 2023

URDU POETRY

 ‏مانتی ہوں تجھے عشق نہیں مجھ سے لیکن

 اس وہم سے اب کون نکالے مجھ کو

 سر کی کھائی ہوئی قسموں سے مکرنے والے

تو تو دیتا تھا حدیثوں کے حوالے مجھ کو

August 03, 2023

 ‏

تُمہارے شہر کا موسم بڑا سُہانا لگے

میں ایک شام چُرا لوں اگر بُرا نہ لگے


تُمہارے بس میں اگر ہو تو بُھول جاؤ ہمیں

تُمہیں بُھلانے میں شاید مُجھے زمانہ لگے


ہمارے پیار سے جلنے لگی ہے اِک دنیا

دُعا کرو کسی دشمن کی بد دُعا نہ لگے


نہ جانے کیا ہے کسی کی اُداس آنکھوں میں

وہ مُنہ چُھپا کے بھی جائے تو بے وفا نہ لگے


جو ڈوبنا ہے تو اتنے سکون سے ڈوبو

کہ آس پاس کی لہروں کو بھی پتا نہ لگے


تُو اِس طرح سے میرے ساتھ بے وفائی کر

کہ تیرے بعد مُجھے کوئی بے وفا نہ لگے


وہ پُھول جو میرے دامن سے ہو گئے منسوب

خدا کرے انہیں بازار کی ہوا نہ لگے


تم آنکھ مُوند کے پی جاؤ زندگی قیصرؔ

کہ ایک گھونٹ میں شاید یہ بدمزا نہ لگے

قیصرؔ الجعفری