مری جان خانہ بدوش کو وہ سکوں ملا ترے شہر سے
کہ میں کوچ کرنے کے بعد بھی نہ بچھڑ سکا ترے شہر سے
میں سحاب بن کے ہواؤں میں تجھے ڈھونڈھتا تھا فضاؤں میں
سو ترے مکاں پہ برس پڑا جو گزر ہوا ترے شہر سے
تری رہ گزر سے لگاؤ تھا ترے آستاں پہ پڑاؤ تھا
ترا حکم تھا کہ سفر کروں سو میں چل پڑا ترے شہر سے
نہ وہ بجلیاں تھیں جمال کی نہ وہ بارشیں تھیں وصال کی
کئی حسرتوں سے اٹا ہوا میں گزر گیا ترے شہر سے
مرا نخل ذات اجڑ گیا میں تری زمیں سے اکھڑ گیا
کوئی گرد باد جنون کا مجھے لے اڑا ترے شہر سے
کہیں تخلیئے کو جو پا لیا وہیں بوریے کو بچھا لیا
میں نے کوہ و دشت کی خلوتوں کا مزہ لیا ترے شہر سے
میں دیار غیر میں اجنبی کبھی اس گلی کبھی اس گلی
میں تری گلی کا اسیر تھا مجھے عشق تھا ترے شہر سے
نہ میں کوہ کن نہ میں قیس تھا میں ترے نگر کا اویسؔ تھا
انہیں بندمن سے تھیں نسبتیں مرا سلسلہ ترے شہر سے
No comments:
Post a Comment