ساکوں بال کے شاکر ہتھ سیکیں
اساں راہ دے کَکھ تیڈے کم اساں
تیڈے بعد تہ ساڈہ کوئی نہیں شاکر ہن ہک تو ہی ساڈی جندجان ہے
Tedy
baad ta sada koi nai shakir hun hik tu hi sadi jynd jaan hy
ساکوں بال کے شاکر ہتھ سیکیں
اساں راہ دے کَکھ تیڈے کم اساں
تیڈے بعد تہ ساڈہ کوئی نہیں شاکر ہن ہک تو ہی ساڈی جندجان ہے
Tedy
baad ta sada koi nai shakir hun hik tu hi sadi jynd jaan hy
ہن بس کر روسے آہ ونج سجناں تیڈی یاد اچ ساری مکدی پئی ہے میں سُنڑیاں ہے زندگی ول نہیں لبھنی تائییوں تیری یاد اچ سڑدی پہیئ ہے
Hun bas
kar rosy a wanj sajna tedi yaad ech sari mukdi pai hy my sunya hy zindagi wl
nai labhni taiyo teri yaad ech sardi pai hy
ساڈے اجڑے دل دا حال نہ پوچھ
متاں پہلا مجرم توں ہوویں
تیڈے پچھے رولتی میں ذندگی توں میکو وی چھڈ کے ٹر پیا ہیں ایڈی گل تہ یار کوئی نائی ہوئی ایوے رس کے تو وی ٹر پیا ہے
Tedy
pichy roolti my zindagi tu meku wi chad ky tur piya hen aydi gal Ta yaar koi
nai hoi ewy rus ky tu wi tur peya hen
ساڈے اجڑے دل دا حال نہ پوچھ
متاں پہلا مجرم توں ہوویں
تیڈے پچھے رولتی میں ذندگی توں میکو وی چھڈ کے ٹر پیا ہیں ایڈی گل تہ یار کوئی نائی ہوئی ایوے رس کے تو وی ٹر پیا ہے
ہن بس کر روسے آہ ونج سجناں تیڈی یاد اچ ساری مکدی پئی ہے میں سُنڑیاں ہے زندگی ول نہیں لبھنی تائییوں تیری یاد اچ سڑدی پہیئ ہے
تیڈے بعد تہ ساڈہ کوئی نہیں شاکر ہن ہک تو ہی ساڈی جندجان ہے
جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی
حالات کا ماتم تھا ملاقات کہاں تھی
اس نے نہ ٹھہرنے دیا پہروں مرے دل کو
جو تیری نگاہوں میں شکایت مری جاں تھی
گھر میں بھی کہاں چین سے سوئے تھے کبھی ہم
جو رات ہے زنداں میں وہی رات وہاں تھی
یکساں ہیں مری جان قفس اور نشیمن
انسان کی توقیر یہاں ہے نہ وہاں تھی
شاہوں سے جو کچھ ربط نہ قائم ہوا اپنا
عادت کا بھی کچھ جبر تھا کچھ اپنی زباں تھی
صیاد نے یونہی تو قفس میں نہیں ڈالا
مشہور گلستاں میں بہت میری فغاں تھی
تو ایک حقیقت ہے مری جاں مری ہم دم
جو تھی مری غزلوں میں وہ اک وہم و گماں تھی
محسوس کیا میں نے ترے غم سے غم دہر
ورنہ مرے اشعار میں یہ بات کہاں تھی
(حبیب جالب)
یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں
تمام تیری حکایتیں ہیں
یہ تذکرے تیرے لطف کے ہیں
یہ شعر تیری شکایتیں ہیں
میں سب تری نذر کر رہا ہوں
یہ ان زمانوں کی ساعتیں ہیں
جو زندگی کے نئے سفر میں
تجھے کسی وقت یاد آئیں
تو ایک اک حرف جی اٹھے گا
پہن کے انفاس کی قبائیں
اداس تنہائیوں کے لمحوں
میں ناچ اٹھیں گی یہ اپسرائیں
مجھے ترے درد کے علاوہ بھی
اور دکھ تھے یہ مانتا ہوں
ہزار غم تھے جو زندگی کی
تلاش میں تھے یہ جانتا ہوں
مجھے خبر تھی کہ تیرے آنچل میں
درد کی ریت چھانتا ہوں
مگر ہر اک بار تجھ کو چھو کر
یہ ریت رنگ حنا بنی ہے
یہ زخم گلزار بن گئے ہیں
یہ آہ سوزاں گھٹا بنی ہے
یہ درد موج صبا ہوا ہے
یہ آگ دل کی صدا بنی ہے
اور اب یہ ساری متاع ہستی
یہ پھول یہ زخم سب ترے ہیں
یہ دکھ کے نوحے یہ سکھ کے نغمے
جو کل مرے تھے وہ اب ترے ہیں
جو تیری قربت تری جدائی
میں کٹ گئے روز و شب ترے ہیں
وہ تیرا شاعر ترا مغنی
وہ جس کی باتیں عجیب سی تھیں
وہ جس کے انداز خسروانہ تھے
اور ادائیں غریب سی تھیں
وہ جس کے جینے کی خواہشیں بھی
خود اس کے اپنے نصیب سی تھیں
نہ پوچھ اس کا کہ وہ دوانہ
بہت دنوں کا اجڑ چکا ہے
وہ کوہ کن تو نہیں تھا لیکن
کڑی چٹانوں سے لڑ چکا ہے
وہ تھک چکا تھا اور اس کا تیشہ
اسی کے سینے میں گڑ چکا ہے
چل انشاء اپنے گاؤں میں
یہاں اُلجھے اُلجھے رُوپ بہت
پر اصلی کم، بہرُوپ بہت
اس پیڑ کے نیچے کیا رُکنا
جہاں سایہ کم ہو، دُھوپ بہت
چل انشاء اپنے گاؤں میں
بیٹھیں گے سُکھ کی چھاؤں میں
کیوں تیری آنکھ سوالی ہے؟
یہاں ہر اِک بات نرالی ہے
اِس دیس بسیرا مت کرنا
یہاں مُفلس ہونا گالی ہے
چل انشاء اپنے گاؤں میں
بیٹھیں گے سُکھ کی چھاؤں میں
جہاں سچے رشتے یاریوں کے
جہاں گُھونگھٹ زیور ناریوں کے
جہاں جھرنے کومل سُکھ والے
جہاں ساز بجیں بِن تاروں کے
چل انشاء اپنے گاؤں میں
بیٹھیں گے سُکھ کی چھاؤں میں
یہ الگ بات مقدر نہیں بدلہ اپنا
ایک ہی در پر رہے ، در نہیں بدلہ اپنا
عشق کا کھیل ہے شطرنج نہیں ہے جاناں
مات کھائی ہے مگر گھر نہیں بدلہ اپنا
اور جانے کس وقت اچانک اُسے یاد آ جائے
میں نے یہ سوچ کے نمبر نہیں بدلہ اپنا۔۔۔!!؟
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
بات وہ آدھی رات کی رات وہ پورے چاند کی
چاند بھی عین چیت کا اس پہ ترا جمال بھی
سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا
ایک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ و سال بھی
دل تو چمک سکے گا کیا پھر بھی تراش کے دیکھ لیں
شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی
اس کو نہ پا سکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا
اب جو پلٹ کے دیکھیے بات تھی کچھ محال بھی
میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی
اس کی سخن طرازیاں میرے لیے بھی ڈھال تھیں
اس کی ہنسی میں چھپ گیا اپنے غموں کا حال بھی
گاہ قریب شاہ رگ گاہ بعید وہم و خواب
اس کی رفاقتوں میں رات ہجر بھی تھا وصال بھی
اس کے ہی بازوؤں میں اور اس کو ہی سوچتے رہے
جسم کی خواہشوں پہ تھے روح کے اور جال بھی
شام کی نا سمجھ ہوا پوچھ رہی ہے اک پتا
موج ہوائے کوئے یار کچھ تو مرا خیال بھی
ستارے جو دمکتے ہیں
کسی کی چشم حیراں میں
ملاقاتیں جو ہوتی ہیں
جمال ابر و باراں میں
یہ نا آباد وقتوں میں
دل ناشاد میں ہوگی
محبت اب نہیں ہوگی
یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
گزر جائیں گے جب یہ دن
یہ ان کی یاد میں ہوگی
منیر نیازی
جے تنگ ہووے ساڈی ذات کولوں
دے صاف ڈسا تیڈی جان چھٹے
تیکوں پیار کیتا تیڈا مجرم ہاں
دے سخت سزا تیڈی جان چھٹے
رب توں منگی ضائع نئی تھیندی
منگ دیکھ دعا تیڈی جان چھٹے
ایوی مار نا شاکر قسطاں وچ
یک مشت مکا تیری جان چھٹے
شاکر شجاع آبادی
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
بات وہ آدھی رات کی رات وہ پورے چاند کی
چاند بھی عین چیت کا اس پہ ترا جمال بھی
سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا
ایک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ و سال بھی
دل تو چمک سکے گا کیا پھر بھی تراش کے دیکھ لیں
شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی
اس کو نہ پا سکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا
اب جو پلٹ کے دیکھیے بات تھی کچھ محال بھی
میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی
اس کی سخن طرازیاں میرے لیے بھی ڈھال تھیں
اس کی ہنسی میں چھپ گیا اپنے غموں کا حال بھی
گاہ قریب شاہ رگ گاہ بعید وہم و خواب
اس کی رفاقتوں میں رات ہجر بھی تھا وصال بھی
اِک موجہٓ صہباےٓ جُنوں تیز بہت ہے
اِک سانس کا شیشہ ہے کہ لبریز بہت ہے
کُچھ دِل کا لہو پی کے بھی فصلیں ہُوئیں شاداب
کُچھ یوں بھی زمیں گاوٓں کی زرخیز بہت ہے
پلکوں پہ چراغوں کو سنبھالے ہوئے رکھنا
اِس ہِجر کے موسم کی ہوا تیز بہت ہے
بولے تو سہی ، جھوٹ ہی بولے وہ بَلا سے
ظالم کا لب و لہجہ دل آویز بہت ہے
کیا اُس کے خدوخال کُھلیں اپنی غزل میں
وہ شہر کے لوگوں میں کم آمیز بہت ہے
محسؔن اُسے ملنا ہے تو دُکھنے دو یہ آنکھیں
کچھ اور بھی جاگو کہ وہ ’’شب خیز‘‘ بہت ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ویراں ہے مے کدہ خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے
بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیضؔ
مت پوچھ ولولے دل ناکردہ کار کے
فیض احمد فیضؔ