میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا
قرعۂ فال مرے نام کا اکثر نکلا تھا جنہیں زعم وہ دریا بھی مجھی میں ڈوبے میں کہ صحرا نظر آتا تھا سمندر نکلا میں نے اس جان بہاراں کو بہت یاد کیا جب کوئی پھول مری شاخ ہنر پر نکلا شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا تو یہیں ہار گیا ہے مرے بزدل دشمن مجھ سے تنہا کے مقابل ترا لشکر نکلا میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فرازؔ ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا احمد فرازJuly 13, 2025
Peer Naseer ud Din Naseer
کبھی اُن کا نام لینا کبھی اُن کی بات کرنا مرا ذوق اُن کی چاہت، مرا شوق اُن پہ مرنا وہ کسی کی جھیل آنکھیں وہ میری جُنوں مزاجی کبھی ڈُوبنا اُبھر کر کبھی ڈُوب کر اُبھرنا ترے منچلوں کا جگ میں یہ عجب چلن رہا ہے نہ کسی کی بات سُننا، نہ کسی سے بات کرنا شب غم نہ پُوچھ کیسے ترے مبتلا پہ گزری کبھی آہ بھر کے گرنا کبھی گر کے آہ بھرنا وہ تری گلی کے تیور وہ نظر نظر پہ پہرے وہ مرا کسی بہانے تجھے دیکھتے گزرنا کہاں میرے دل کی حسرت کہاں میری نارسائی کہاں تیرے گیسوؤں کا ترے دوش پر بکھرنا تجھے دیکھ کر نہ جانے ابھی کیوں ہیں لوگ زندہ ہے عجیب بد مذاقی تجھے دیکھ کر نہ مرنا ترے سامنے سے آ کر کوئی آئینہ ہٹا دے کہ بڑھا رہا ہے اُلجھن تری زلف کا سنورنا مرا آشیاں جلا دے نہیں اِس کا خوف، لیکن نہ قفس میں قید کر کے مرے بال و پر کترنا چلے لاکھ چال دُنیا، ہو زمانہ لاکھ دشمن جو تری پناہ میں ہو اُسے کیا کسی سے ڈرنا وہ کریں گے ناخدائی تو لگے گی پار کشتی ہے نصیرؔ ورنہ مشکل ترا پار یُوں اُترنا پیر نصیر الدین نصیر