May 30, 2024

Mohsin Naqvi

 ‏ابھی کیا کہیں ابھی کیا سنیں

کہ سرِ فصیلِ سْکوتِ جاں

کفِ روز و شب پہ شرر نما

وہ جو حرف حرف چراغ تھا

اْسے کس ہوا نے بجھا دیا

کبھی لب ہلیں گے تو پْوچھنا

سرِ شہرِ عہدِ وصالِ دل

وہ جو نکہتوں کا ہُجوم تھا

اسے دستِ موجِ فراق نے

تہہِ خاک کب سے ملا دیا

کبھی گُل کھلیں گے تو پوچھنا

ابھی کیا کہیں ابھی کیا سنیں

یونہی خواہشوں کے فشار میں

کبھی بے سبب، کبھی بے خلل

کہاں کون کس سے بچھڑ گیا

کسے کس نے کیسے بھُلا دیا

کبھی پھر ملیں گے تو پْوچھنا

کبھی لب ہلیں گے تو پْوچھنا

کبھی گُل کھلیں گے تو پوچھنا


محسن نقوی