Taikon yad hosi mai akhya ham' dildar mitha tu chor waisin,
Wal wal quran te hath na rakh' na kasman chaa tu chor waisin,kojh soch samjh k faisla kar' na josh dikha tu chor waisin,
Kar shakir kon barbad sajan' bas lok khila tu chor waisin,
Taikon yad hosi mai akhya ham' dildar mitha tu chor waisin,
Wal wal quran te hath na rakh' na kasman chaa tu chor waisin,کوئی تردید کا صَدمہ ھے ، نہ اَثبات کا دُکھ
جب بچھڑنا ھی مقدر ھے تو ، کس بات کا دُکھ؟
میز پر چائے کا بھاپ اُڑاتا ھُوا کپ
اور ساتھ رَکھا ھے , نہ ھونے والی ملاقات کا دُکھ__
کیسے گزری ہیں جدائ میں ہماری شامیں
تم سے کہہ دیں تو اُجڑ جائیں تمہاری شامیں
ہجر ،پردیس ،تہی جیب ، غزل کی وحشت
تم نے دیکھی نہیں حالات کی ماری شامیں
اُس نے کچھ سوچ کے انسان میں وحشت رکھی
اُس نے ہیں سوچ کے دنیا میں اُتاری شامیں
احمد سلمان
ہنسنے کا مشورہ بھی ترا خوب ہے مگر
مجھ میں تھا خوش مزاج کوئی، وہ نہیں رہا
چہرے کو دیکھ کر جو سمجھتا تھا میرا دکھ
ایسا بھی کوئی شخص مرا ہم نشیں رہا
کچھ اس لیے بھی میں یہاں اکتا گیا ہوں دوست
بستی میں ہم مزاج کوئی مل نہیں رہا
جمیل احمد قیس
کہا اس نے
تب مجھے واقعی تم سے محبت تھی کہا میں نے مجھے تو اب بھی تم سے محبت ہے وہ " تب" کی بات کرتی ہے" میں" اب" کی بات کرتا ہوں مگر جو " فاصلہ" " تب " اور " اب " کے درمیاں حائل ہے وہ ہم سے تو مل کر بھی سمیٹا جا نہیں سکتا وہ " اب " تک آ نہیں سکتی اور میں" تب " کو پا نہیں سکتاسب قرینے۔۔۔ اُسی دل دار کے رکھ دیتے ہیں
ہم غزل میں بھی۔۔۔ ہنر یار کے رکھ دیتے ہیں
ذکرِجاناں میں۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دنیا کو کہاں لے آئے
لوگ کیوں مسئلے بے کار کے رکھ دیتے ہیں
ہم تو چاہت میں بھی غالب کے مقلد ہیں فراز
جس پہ مرتے ہیں اُسے مار کے رکھ دیتے ہیں
احمد فراز
وہ جو پامالِ زمانہ ہیں، مِرے تخت نشیں!
دیکھ تو کیسی مُحبّت سے تُجھے دیکھتے ہیں
کاسہء دِید میں بس ایک جَھلک کا سِکّہ
ہم فقیروں کی قناعت سے تُجھے دیکھتے ہیں
تُجھ کو کیا عِلم، تُجھے ہارنے والے کچھ لوگ
کِس قدر سخت ندامت سے تُجھے دیکھتے ہیں
پروین شاکر
تمہارا یوں مکر جانا ، اچانک یوں بدل جانا
تو مطلب مجھ کو خوابوں میں اشارے ٹھیک ملتے ہیں
ہمیں تو جو ملا اپنا , وہی ڈسنے میں ماہر تھا
نجانے کیسے لوگوں کو سہارے ٹھیک ملتے ہیں
عجیب رت تھی کہ ہر چند پاس تھا وہ بھی
بہت ملول تھا میں بھی، اداس تھا وہ بھی
کسی کے شہر میں کی گفتگو ہواؤں سے
یہ سوچ کر کہ کہیں آس پاس تھا وہ بھی
ہم اپنے زعم میں خوش تھے کہ اس کو بھول چکے
مگر گمان تھا یہ بھی، قیاس تھا وہ بھی
احمد فراز
ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں
ہم نے جن کے لئے راہوں میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہدِ وفا یاد نہیں
میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
ساغر صدیقی
ہر اک ہزار میں بس پانچ سات ہیں ہم لوگ
نصاب عشق پہ واجب زکوٰۃ ہیں ہم لوگ
دباؤ میں بھی جماعت کبھی نہیں بدلی
شروع دن سے محبت کے ساتھ ہیں ہم لوگ
جو سیکھنی ہو زبان سکوت بسم اللہ
خموشیوں کی مکمل لغات ہیں ہم لوگ
کہانیوں کے وہ کردار جو لکھے نہ گئے
خبر سے حذف شدہ واقعات ہیں ہم لوگ
یہ انتظار ہمیں دیکھ کر بنایا گیا.
ظہور ہجر سے پہلے کی بات ہیں ہم لوگ.
کسی کو راستہ دے دیں کسی کو پانی نہ دیں.
کہیں پہ نیل کہیں پر فرات ہیں ہم لوگ.
ہمیں جلا کے کوئی شب گزار سکتا ہے.
سڑک پہ بکھرے ہوئے کاغذات ہیں ہم لوگ.
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
کچھ تو مرے پندار محبت کا بھرم رکھ
تو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لیے آ
پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو
رسم و رہ دنیا ہی نبھانے کے لیے آ
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ
اک عمر سے ہوں لذت گریہ سے بھی محروم
اے راحت جاں مجھ کو رلانے کے لیے آ
اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں
یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لیے آ