October 31, 2022

کوئی بچنے کا نہیں سب کا پتا جانتی ہے Manzar Bhopali

 

کوئی بچنے کا نہیں سب کا پتا جانتی ہے

کس طرف آگ لگانا ہے ہوا جانتی ہے

اجلے کپڑوں میں رہو یا کہ نقابیں ڈالو

تم کو ہر رنگ میں یہ خلق خدا جانتی ہے

روک پائے گی نہ زنجیر نہ دیوار کوئی

اپنی منزل کا پتہ آہ رسا جانتی ہے

ٹوٹ جاؤں گا بکھر جاؤں گا ہاروں گا نہیں

میری ہمت کو زمانے کی ہوا جانتی ہے

آپ سچ بول رہے ہیں تو پشیماں کیوں ہیں

یہ وہ دنیا ہے جو اچھوں کو برا جانتی ہے

آندھیاں زور دکھائیں بھی تو کیا ہوتا ہے

گل کھلانے کا ہنر باد صبا جانتی ہے

آنکھ والے نہیں پہچانتے اس کو منظرؔ

جتنے نزدیک سے پھولوں کی ادا جانتی ہے

Faiz Ahmad Faiz

 ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے

دشنام تو نہیں ہے یہ اکرام ہی تو ہے دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
Faiz Ahmed Faiz

October 29, 2022

Kalam Baba Bulleh Shah


 

مجھےخط ملا ہےغنیم کا

 مجھےخط ملا ہےغنیم کا

بڑی عجلتوں میں لکھاہوا کہیں رنجشوں کی کہانیاں کہیں دھمکیوں کا ہےسلسلہ مجھےکہہ دیا ہےامیر نے کرو حسنِ یار کا تذکرہ تمہیں کیا پڑی ہےکہ رات دن کہوحاکموں کو برا بھلا تمہیں فکرِ عمرِ عزیز ہے تو نہ حاکموں کوخفا کرو جو امیرِ شہر کہےتمہیں
وہی شاعری میں کہا کرو

کوئی واردات کہ دن کی ہو کوئی سانحہ،کسی رات ہو نہ امیرِ شہر کا ذکر ہو نہ غنیمِ وقت کی بات ہو کہیں تارتار ہوں عصمتیں مرےدوستوں کو نہ دوش دو جو کہیں ہو ڈاکہ زنی اگر تو نہ کوتوال کا نام لو کسی تاک میں ہیں لگےہوئے مرے جاں نثار گلی گلی ہیں مرے اشارے کے منتظر مرے عسکری، مرے لشکری

جو تمہارے جیسے جوان تھے کبھی میرے آگے رکے نہیں انہیں اس جہاں سے اٹھا دیا وہ جو میرے آگے جھکے نہیں جنہیں جان و مال عزیز تھے وہ تو میرے ڈر سے پگھل گئے جو تمہاری طرح اٹھے بھی تو انہیں بم کے شعلے نگل گئے مرے جاں نثاروں کو حکم ہے کہ گلی گلی یہ پیام دیں

October 28, 2022

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

 


ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا

کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو

یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا

رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا

جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا

غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے

غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے

مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا

نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا

جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا

یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ

تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا